صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
43. باب بَيَانِ أَنَّ السَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رُكْنٌ لاَ يَصِحُّ الْحَجُّ إِلاَّ بِهِ:
باب: صفا و مروہ کے درمیان سعی حج کا رکن ہے اس کے بغیر حج نہیں۔
حدیث نمبر: 3081
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا، وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، قَالَتْ: " بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ فَكَانَتْ سُنَّةً، وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ، لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ سَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ، يَقُولُونَ: إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ.
سفیان نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: میں نے زہری سے سنا، وہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص جس نے (حج وعمرہ میں) صفا مروہ کا طواف نہیں کیا اس پر کوئی گناہ ہوگا۔اور مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں کہ میں صفا مروہ کا طواف (کروں یا) نہ کروں۔انھوں نے جواب دیا: بھانجے تم نے جو کہا، وہ کتنا غلط ہے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طواف کیا اور تمام مسلمانوں نے بھی کیا۔یہی (حج وعمرے کا) طریقہ قرار پایا۔اصل میں جو لوگ مناۃ طاغیہ (بت) کے لئے جو کہ مثلل میں تھا، احرام باندھتے تھے وہ صفا مروہ کے مابین طواف نہیں کرتے تھے۔جب اسلام آیا تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی؛" بلا شبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے۔"اگر وہ بات ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہوتو (آیت کےالفاظ) اس طرح ہوتے: "تو اس پر کوئی گناہ نہیں جو ان دونوں کا طواف نہ کرے۔" زہری نے کہا: میں نےاس بات کاذکر (جو عروہ سے سنی تھی) ابو بکر بن عبدالرحمان بن حارث بن ہشام سے کیا، انھیں یہ بات بہت اچھی لگی، انھوں نےفرمایا: بلا شبہ یہی تو علم ہے۔میں نے بھی کئی اہل علم سے سنا، وہ کہتےتھے: عربوں میں سے جو لوگ صفا مروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے: ان دو پتھروں کے درمیان طواف کرنا تو جاہلیت کے معاملات میں سے تھا، اور انصار میں سے کچھ اور لوگوں نے کہا: ہمیں توصرف بیت اللہ کے طواف کاحکم دیا گیا ہے۔صفا مروہ کے مابین (طواف) کاتوحکم نہیں دیاگیا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی"بلاشبہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ابو بکر بن عبدالرحمان نے کہا: مجھے لگتاہے یہ آیت ان دونوں طرح کےلوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میرے نزدیک اگر کوئی صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے، تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر میں ان کے درمیان طواف نہ کروں تو کوئی پرواہ نہیں ہو گی، انہوں نے فرمایا، تم نے بہت بری بات کہی ہے، اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طواف کیا، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) مسلمانوں نے ان کا طواف کیا، (اس لیے یہ) مسلمانوں کا طریقہ ہے، اصل بات یہ ہے جو لوگ مشلَّل پر واقعہ مناۃ بت کے لیے احرام باندھتے تھے، وہ لوگ صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے، جب اسلام کا دور آیا تو ہم نے اس کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں، تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے، اس پر ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، زہری کہتے ہیں، میں نے یہ بات ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو بتائی، تو انہیں بات بہت پسند آئی، اور کہنے لگے، علم اس کا نام ہے، میں نے بہت سے اہل علم سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں، جو عرب صفا اور مروہ کے درمیان طواف سے گریز کرتے تھے، وہ کہتے تھے، ہمارا ان دو پتھروں کے درمیان طواف کرنا جاہلیت کی رسم ہو گی، اور کچھ دوسرے انصار کہتے تھے، ہمیں بس بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا گیا ہے، اور ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (صفا اور مروہ اللہ کے دین کی امتیازی علامات میں سے ہیں) ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں، یہ آیت ان دونوں گروہوں کے بارے میں اتری ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2965  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2965]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔

2؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: 158)

3؎:
خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت اِساف نام کا تھا،
اور مروہ پر نائلہ نام کا،
اس پر اللہ نے فرمایا:
ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے،
اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا،
بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے،
ارشاد نبوی ہے (اسعَوا فَإِنَّ اللہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْی) (احمد والحاکم بسند حسن) (یعنی:
سعی کرو،
کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2965   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3081  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں آیت کے نزول کا ایک اور پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سلسلہ میں پہلے چونکہ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرنے کی تصریح نازل نہیں ہوئی تھی اس لیے بعض لوگوں نے خیال کیا،
اگرسعی نہ بھی کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
تو فرمایا:
(یہ تو شعائر اللہ،
دین کے امتیازی نشانات اورعلامات میں سے ہیں)

ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
کیونکہ شعائر دین وشریعت کے وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی معنوی حقیقت کا شعور پیدا کرنے کے لیے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3081