صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
45. باب اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَشْرَعَ فِي رَمْيِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ:
باب: حاجی کا قربانی کے دن جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پڑھتے رہنے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 3089
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ لِلنَّاسِ، حِينَ دَفَعُوا عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ، حَتَّى دَخَلَ مُحَسِّرًا وَهُوَ مِنْ مِنًى، قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِحَصَى الْخَذْفِ الَّذِي يُرْمَى بِهِ الْجَمْرَةُ "، وَقَالَ: " لَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ "،
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلا م ابو معبد نے (عبد اللہ) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (ساتھ اونٹنی پر) پیچھے سوار تھے آپ نے عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح لوگوں کے چلنے کے وقت انھیں تلقین کی: سکون سے (چلو) "اور آپ اپنی اونٹنی کو (تیز چلنے سے) روکے ہو ئے تھے حتیٰ کہ آپ وادی محسر میں دا خل ہوئے۔۔۔وہ منیٰ ہی کا حصہ ہے۔۔۔آپ نے فرما یا: " تم (دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر) ماری جا نے والی کنکریاں ضرور لے لو جن سے جمرہ عقبہ کورمی کی جا ئے گی۔" (فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک مسلسل تلبیہ پکا رتے رہے۔
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح، چلتے وقت لوگوں سے فرمایا: سکینت و سکون کو لازم پکڑو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو (تیز چلنے سے) روکے ہوئے تھے، حتیٰ کہ وادی محسر میں داخل ہو گئے، جو منیٰ کا حصہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنے والی کنکریاں، جمرہ مارنے کے لیے اٹھا لو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمی جمرہ تک تلبیہ کہتے رہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 918  
´حج میں تلبیہ پکارنا کب بند کیا جائے؟`
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 918]
اردو حاشہ:
1؎:
ان لوگوں کا استدلال ((حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ)) سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے،
لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہئے،
ان کی دلیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت ہے جس میں ((لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى بَلَغَ الْجَمْرَةَ)) کے الفاظ وارد ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 918   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1815  
´لبیک پکارنا کب بند کرے؟`
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1815]
1815. اردو حاشیہ: تلبیہ احرام باندھنے کے وقت سے شروع ہو کر دسویں تاریخ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک ہی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایت میں ہے: آپﷺ تلبیہ کہتے رہے حتی کہ جمرہ کے پاس پہنچ گئے۔ (صحیح البخاری الحج حدیث:1543 1544 و صحیح مسلم الحج حدیث:1281]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1815   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3089  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین۔
تابعین رحمۃ اللہ علیہم۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جمرہ عقبہ کی رمی شروع کرتے وقت تلبیہ کہنا بند کر دیا جائے گا لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے تلبیہ رمی جمرہ عقبہ ختم کرتے وقت ختم کیا جائے گا۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ۔
بعض شوافع اورمحدثین کا موقف یہی ہے۔
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام لیث رحمۃ اللہ علیہ۔
اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیا جائے گا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کاعلم نہ ہو سکا،
جس سے معلوم ہوتا ہے بعض دفعہ قریب تر ین ساتھیوں سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اوجھل رہ جاتا تھا،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،
ازواج مطہرات میں سے ہیں اور سعد وعلی رضوان اللہ عنھم اجمعین عشرہ مبشرہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ہیں۔
اس لیے ہمارے لیے حجت ودلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کسی جلیل القدر صحابی یا امام کا طرز عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت نہیں بن سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3089