صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
49. باب اسْتِحْبَابِ تَقْدِيمِ دَفْعِ الضَّعَفَةِ مِنَ النِّسَاءِ وَغَيْرِهِنَّ مِنْ مُزْدَلِفَةَ إِلَى مِنًى فِي أَوَاخِرِ اللَّيَالِي قَبْلَ زَحْمَةِ النَّاسِ وَاسْتِحْبَابِ الْمُكْثِ لِغَيْرِهِمْ حَتَّى يُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةَ:
باب: ضعیفوں اور عورتوں کو لوگوں کے جمگھٹے سے پہلے رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرنے کا استحباب، اور ان کے علاوہ لوگوں کو مزدلفہ میں ہی صبح کی نماز پڑھنے تک ٹھہرنے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 3122
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: قَالَتْ لِي أَسْمَاءُ ، وَهِيَ عِنْدَ دَارِ الْمُزْدَلِفَةِ: هَلْ غَابَ الْقَمَرُ، قُلْتُ: لَا، فَصَلَّتْ سَاعَةً، ثُمّ قَالَتْ: يَا بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: ارْحَلْ بِي، فَارْتَحَلْنَا حَتَّى رَمَتِ الْجَمْرَةَ، ثُمَّ صَلَّتْ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ هَنْتَاهْ لَقَدْ غَلَّسْنَا، قَالَتْ: كَلَّا أَيْ بُنَيَّ " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ "،
یحییٰ قطا ن نے ہمیں ابن جریج سے حدیث بیان کی، (کہا:) اسما رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ نے مجھ سے حدیث بیان کی کہا: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جب وہ مزدلفہ کے (اندر بنے ہو ئے مشہور) گھر کے پاس ٹھہری ہو ئی تھیں، مجھ سے پوچھا: کیا چا ند غروب ہو گیا؟ میں نے عرض کی: نہیں، انھوں نے گھڑی بھر نماز پڑھی، پھر کہا: بیٹے!کیا چاندغروب ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کی، جی ہاں۔انھوں نے کہا: مجھے لے چلو۔ تو ہم روانہ ہو ئے حتی کہ انھوں نے جمرہ (عقبہ) کو کنکریاں ماریں پھر (فجر کی) نماز اپنی منزل میں ادا کی۔تو میں نے ان سے عرض کی: محترمہ!ہم را ت کے آخری پہر میں (ہی) روانہ ہو گئے۔انھوں نے کہا: بالکل نہیں، میرے بیٹے!نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو (پہلے روانہ ہو نے کی) اجا زت دی تھی۔
حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بیان کرتے ہیں، کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے دریافت کیا، جبکہ وہ مزدلفہ والے گھر کے پاس تھیں، کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا، نہیں، تو وہ کچھ وقت تک نماز پڑھتی رہیں، پھر پوچھا، اے بیٹا! کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ انہوں نے کہا، مجھے لے چلو، ہم چل پڑے، حتی کہ انہوں نے جمرہ پر کنکریاں ماریں، پھر اپنی قیام گاہ پر صبح کی نماز پڑھی، میں نے پوچھا، اے محترمہ! ہم نے بہت اندھیرے میں کام کر لیا، انہوں نے جواب دیا، بالکل نہیں، اے بیٹے! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اجازت دے دی تھی۔