صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
28. بَابُ الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ:
باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 702  
´امام کو چاہئے کہ قیام ہلکا کرے اور رکوع اور سجود پورے پورے ادا کرے`
«. . . قَالَ:" إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ (عوام کو عبادت سے یا دین سے) نفرت دلا دیں، خبردار تم میں لوگوں کو جو شخص بھی نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیونکہ نمازیوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 702]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بظاہر خلاف ہے کیونکہ حدیث میں قیام کا مختصر ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں رکوع اور سجود کا ذکر بھی فرمایا کہ ان کو مکمل ادا کیا جائے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں واضح الفاظ ہیں کہ رکوع اور سجود کو مکمل کرنا چاہئے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و فى الطبراني من حديث عدي بن حاتم رضى الله عنه من امنا فليتم الركوع والسجود» [فتح الباري ج 2 ص252]
جو کوئی امامت کروائے تو اسے چاہئیے کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا کرے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تخفیف کا حکم دینا قیام کے لیے تھا نہ کہ رکوع اور سجود کے لیے یہی بات ابن المنیر نے بھی فرمائی ہے۔ [ديكهيے المتواري ج1 ص100]

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ نے اسی تطبیق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قیام میں تو تخفیف سے کام لیا جائے، مگر رکوع اور سجود کے مکمل میں کسی کو کوئی مشق نہیں ہوتی۔ [عمدة القاري ج5 ص257]
لہٰذا ان احادیث و اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ قیام اگرچہ مختصر ہو مگر رکوع اور سجود مکمل ہوں کیونکہ رکوع اور سجود کے مکمل کرنے میں کسی کو کوئی مشقت نہیں۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان الوارد التخفيف فى القيام لا فى الركوع والسجود» [المتواري, ص100]
اس تخفیف کا حکم قیام میں ہے نہ کہ رکوع اور سجود میں۔‏‏‏‏

◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس ترجمۃ الباب سے حدیث میں مذکور لفظ «فليتجوز» کی تفسیر ہے کہ تجوز اختصار کا تعلق قرآت و قیام کے ساتھ ہے، باقی اس کے علاوہ رکوع و سجود مکمل ادا کرنا چاہیے۔ [شرح تراجم ابواب البخاري، ص226]

اشکال:
یہاں پر ایک اشکال بھی وارد ہوتا ہے کہ حدیث مبارک کے الفاظ عام ہیں کہ جو بھی نماز پڑھائے تو وہ تخفیف کرے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تخفیف کو صرف قیام پر ہی لاگو کیوں فرمایا؟
الجواب:
اس اعتراض کا جواب دیتے ہوے علامہ کرمانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«الواو بمعنى مع كأنه قال باب التخفيف بحيث لا يفوته شيئ من الواجبات» [الكواكب الدراري، ج5، ص75]
«واتمام الركوع والسجود» میں واؤ بمعنیٰ مع ہے یعنی تخفیف قیام میں ہو گی مع اتمام الرکوع والسجود کے
شارحین کی وضاحت سے واضح ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ قیام ہلکا ہو لیکن رکوع اور سجود کا اتمام ضرور ہو تخفیف کا حکم قیام کے ساتھ ہے نہ کہ رکوع اور سجود کے ساتھ۔

فائدہ:
مندرجہ بالا حدیث سے مطلق نماز میں تخفیف ہے کیونکہ اکثریت میں کمزور، حاجت مند اور بوڑھے ہوتے ہیں بالغرض اگر یہ نا بھی ہوں تب بھی نماز کے قیام کو ہلکا پڑھنا بالاولی بہتر ہے ہاں اگر بندہ تنہا نماز پڑھے تو جتنی چاہے نماز کو طول دے تو وہ دے سکتا ہے بعین اسی طرح کا واقعہ ایک اور صحابی سے منقول ہے جسے امام ابویعلیٰ الموصلی نے حسن سند کے ساتھ ذکر فرمایا کہ:
«كان ابي بن كعب يصلي باهل قباء فاستفتح سورة طويلة فدخل معه غلام من الانصار فى الصلاة، فلما سمعه استفتاحه انفتل من صلاته، فغضب ابي فاتى النبى صلى الله عليه وسلم يشكو الغلام، واتى الغلام يشكوا ابيا، فغضب النبى صلى الله عليه وسلم حتي عرف الغضب فى وجهه ثم قال: ان منكم منفرين، فاذا صليتم فاوجزوا فان خلفكم الضعيف والكبير والمريض و ذالحاجة» [مسند ابي يعلي الموصلي رقم الحديث 1792, وذكره حافظ فى الفتح ج2 ص252]
سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ اہل قباء والوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے پس انہوں نے ایک لمبی سورت نماز میں شروع کی تو ایک غلام انصار کا وہ نماز سے پھر گیا (اس کے اس فعل پر) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور وہ اس لڑکے کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور اس نے ابی بن کعب کی شکایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی (ابی بن کعب کے نماز طویل پڑھانے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے پر غصہ نمایاں ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد مبارک فرمایا یقیناًً تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو (عبادت سے) نفرت کرواتے ہیں، پس جب تم نماز پڑھاؤ تو ہلکی پڑھاؤ، یقیناًً تمہارے پیچھے کمزور، بوڑھے مریض اور ضرورت مند ہوا کرتے ہیں۔
مندرجہ بالاحدیث سے واضح ہوا کہ نماز میں تخفیف کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ جب کہ آدمی نماز پڑھا رہا ہو۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 188   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7159  
´قاضی کو فیصلہ یا فتویٰ غصہ کی حالت میں دینا درست ہے یا نہیں`
«. . . عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" إِنِّي وَاللَّهِ لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ أَشَدَّ غَضَبًا فِي مَوْعِظَةٍ مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُوجِزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ . . .»
. . . ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں واللہ صبح کی جماعت میں فلاں (امام معاذ بن جبل یا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما) کی وجہ سے شرکت نہیں کر پاتا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ اس نماز کو بہت لمبی کر دیتے ہیں۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ و نصیحت کے وقت اس سے زیادہ غضب ناک ہوتا کبھی نہیں دیکھا جیسا کہ آپ اس دن تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض نمازیوں کو نفرت دلانے والے ہیں، پس تم میں سے جو شخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے اختصار کرنا چاہئے کیونکہ جماعت میں بوڑھے، بچے اور ضرورت مند سب ہی ہوتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ: 7159]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7159 کا باب: «بَابُ هَلْ يَقْضِي الْحَاكِمُ أَوْ يُفْتِي وَهْوَ غَضْبَانُ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ قاضی غصے کی حالت میں فتوی نہ دے، تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی اس کا تعلق باب سے واضح ہے جبکہ جو حدیث سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس کا باب سے تعلق نہیں بنتا، کیوں کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ سنایا تھا، جو کہ ظاہری باب سے مطابقت نہیں بنتی، چنانچہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أدخل فى ترجمة الباب الحديث الأول، وهو دليل على منع الغضب، وأدخل الحديث الثاني وهو دليل جواز القضاء مع الغضب تنبيهًا منه على الجمع، فإما أن يحمل قضاء النبى صلى الله عليه وسلم على الخصوصية به العصمة، و الامن من التعدي.» [المتوري على ابواب البخاري: ص 232، 233]
یعنی ابن المنیر رحمہ اللہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جو پیش فرمائی ہے اس میں غصے میں فیصلہ کرنے سے منع ہے، پھر اس کے بعد حدیث ثانی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی پیش فرمائی ہے جو اس بات پر جواز قائم کرتی ہے غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے پر، پس غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے والی حدیث یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے کیونکہ غصے کی حالت میں بھی نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو تعدی سے امن دیا گیا ہے (یعنی اس حالت میں بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم حق کے سوا کچھ نہیں فرماتے).
ابن المنیر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غصے کی حالت میں فیصلہ کرنا یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خاصہ تھا، کیوں کہ امت کو غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا ان روایات کو پیش کرنے کا مقصد یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ دے جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، اور سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش اس لیے کی کہ اس مسئلہ کا جواز ثابت کیا جائے، مگر کون ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل کہ غصہ کی حالت میں بھی اپنی زبان سے حق ہی ادا کرے «(ما يخرج منه إلا حق)» لہٰذا کوئی امتی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ دے، کیوں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل نہیں ہو سکتا۔ «فمن كان فى مثل حاله جاز و إلا، منع»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 288   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 90  
´استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے`
«. . . قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ . . .»
. . . ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 90]

تشریح:
غصہ کا سبب یہ کہ آپ پہلے بھی منع کر چکے ہوں گے دوسرے ایسا کرنے سے ڈر تھا کہ کہیں لوگ تھک ہار کر اس دین سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 90   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث984  
´جو شخص امامت کرے وہ نماز ہلکی پڑھائے۔`
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی نماز میں دیر سے جاتا ہوں، اس لیے کہ وہ نماز کو بہت لمبی کر دیتا ہے، ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا سخت غضبناک کبھی بھی کسی وعظ و نصیحت میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم میں کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں، لہٰذا تم میں جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے ہلکی پڑھائے، اس لیے کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کسی ذمہ دار یا افسر کی شکایت اس سے بالاتر شخصیت کے سامنے پیش کرنا غیبت میں شامل نہیں۔

(2)
نماز باجماعت سے جان بوجھ کر پیچھے رہنا جائز نہیں۔
لیکن امام کے طویل نماز پڑھانے کی وجہ سے اس شخص کے جان بوجھ کر پیچھے رہنے پر نبی ﷺ ناراض نہیں ہوئے۔
بلکہ اسے ایک معقول عذر قرار دیا۔

(4)
نماز میں تخفیف مناسب ہے لیکن تخفیف کا مقصد بہت زیادہ مختصر کردینا نہیں۔
بلکہ تقریباً اتنی مقدار میں تلاوت کریں جتنی رسول اللہ ﷺ کرتے تھے۔
آپﷺ فجر نماز میں ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت کرتے تھے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجه، اقامة الصلاة، باب القراءة فی صلاة الفجر، حدیث: 818)

(5)
ضرورت مند کا مطلب یہ ہے کہ نماز باجماعت میں ایسے مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں جنھیں نماز کے بعد کوئی ضروری کام کرنا ہوتا ہے اورطویل قراءت سے انھیں پریشانی ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 984   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:90  
90. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فلاں صاحب نماز بہت لمبی پڑھاتے ہیں۔ (ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں:) میں نے نبی ﷺ کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: لوگو! تم دین سے نفرت دلانے والے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، اسے چاہیے کہ تخفیف کرے کیونکہ ان (مقتدیوں) میں بیمار، ناتواں اور صاحبِ حاجت بھی ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:90]
حدیث حاشیہ:

اسلامی تعلیمات میں غصے، ناراضی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ اس سے نفرت کےجذبات پروان چڑھتے ہیں اور اخوت ومودت کی فضا قائم نہیں رہتی لیکن استاد کا غصہ مختلف حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ استاد کا مقصود تعلیم دینا ہوتا ہے تو اس میں بعض دفعہ سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے استاد کا غصہ مقصد تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان احادیث کے پیش نظر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے موقع پر اگرضرورت ہوتو غصے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات مستحسن ہے، مثلاً:
کوئی طالب علم غیر حاضری کرتا ہے یا گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرتا ہے یا حاضری کے باوجود اسباق میں توجہ نہیں دیتا تو استاد کوڈانٹنے اور غصے ہونے کا حق ہے شفقت ومہربانی اپنی جگہ مطلوب ہے اورغصے کا اظہار اپنے محل پر۔

اصلاح معاشرہ کے لیے طریق نبوی یہ ہے کہ وعظ وارشاد میں کسی خاص شخص کا نام لے کر اسے نشانہ نہ بنایاجائے بلکہ ایک اصولی بات کہہ دی جائے جس سے مقصد بھی حاصل ہوجائے اور مخاطب کو شرمندگی بھی نہ ہو، یا کسی وقت الگ اسے غلطی پر تنبیہ کردی جائے کیونکہ بھرے مجمع میں کسی کو نشانہ بنانے سے بعض اوقات وہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مساجد کواپنے مقتدی حضرات کاخیال رکھنا چاہیے کیونکہ امام کا اس قدر لمبی قراءت کرنا جس میں بیماروں، کمزوروں اور ضرورت مندوں کا لحاظ نہ ہو، شان امامت اور موضوع امامت کے خلاف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع پر بہت سختی سے نوٹس لیا اور فرمایا کہ تم لوگوں کونماز باجماعت سے نفرت دلانے والے ہو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں وعظ وتعلیم کے مواقع پر غصہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس کامطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت غضبناک ہونا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جج کو بحالت غصہ فیصلہ کرنے سے منع فرمایا ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحالت غصہ بھی فتویٰ دینے یا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے کیونکہ یہ آپ کاخاصہ تھا۔
آپ کسی حالت میں بھی حق سےانحراف نہیں فرماتے تھے۔
(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7160، وفتح الباري: 247/1)

اس حدیث میں شکایت کنندہ نے کہا:
میرے لیے نماز باجماعت پڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نماز باجماعت کے قریب نہیں جاتا بلکہ بعض اوقات دانستہ اس سے دیر کرتا ہوں کیونکہ جماعت میں قراءت بہت طویل ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض اس لیے ہوئے کہ شاید آپ پہلے بھی اس سے منع فرماچکے تھے۔
(فتح الباري: 246/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 90