صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
49. باب اسْتِحْبَابِ تَقْدِيمِ دَفْعِ الضَّعَفَةِ مِنَ النِّسَاءِ وَغَيْرِهِنَّ مِنْ مُزْدَلِفَةَ إِلَى مِنًى فِي أَوَاخِرِ اللَّيَالِي قَبْلَ زَحْمَةِ النَّاسِ وَاسْتِحْبَابِ الْمُكْثِ لِغَيْرِهِمْ حَتَّى يُصَلُّوا الصُّبْحَ بِمُزْدَلِفَةَ:
باب: ضعیفوں اور عورتوں کو لوگوں کے جمگھٹے سے پہلے رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرنے کا استحباب، اور ان کے علاوہ لوگوں کو مزدلفہ میں ہی صبح کی نماز پڑھنے تک ٹھہرنے کا استحباب۔
حدیث نمبر: 3130
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ : كَانَ يُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَيَقِفُونَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِاللَّيْلِ، فَيَذْكُرُونَ اللَّهَ مَا بَدَا لَهُمْ، ثُمَّ يَدْفَعُونَ قَبْلَ أَنْ يَقِفَ الْإِمَامُ وَقَبْلَ أَنْ يَدْفَعَ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ مِنًى لِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوْا الْجَمْرَةَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: " أَرْخَصَ فِي أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے روانہ کر دیتے تھے۔وہ لوگ رات کو مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس ہی وقوف کرتے، اور جتنا میسر ہو تا اللہ کا ذکر کرتے، اس کے بعد وہ امام کے مشعر حرام کے سامنے وقوف اور اس کی روانگی سے پہلے ہی روانہ ہو جا تے۔ان میں سے کچھ فجر کی نماز اداکرنے) کے لیے منیٰ آجا تے اور کچھ اس کے بعد آتے۔پھر جب وہ (سب لو گ منیٰ آجا تے تو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان (کمزور لوگوں) کو رخصت دی ہے۔
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں، کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما، اپنے ضعیف گھر والوں کو پہلے روانہ کر دیتے تھے، وہ مزدلفہ میں رات کو مشعر حرام کے پاس ٹھہر جاتے، اور جب تک چاہتے اللہ کا ذکر کرتے، پھر وہ امام کے (مشعر حرام میں) وقوف اور روانگی سے پہلے چل پڑتے، ان میں سے بعض منیٰ میں نماز فجر کے وقت پہنچ جاتے، اور بعض اس کے بعد پہنچتے، جب وہ پہنچ جاتے، تو جمرہ کو کنکریاں مارتے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے، ان کو (ضعیفوں کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3130  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قربانی کے دن جمرہ عقبہ کو سورج نکلنے کے بعد کنکریاں مارنا بالاتفاق افضل ہے لیکن کمزور لوگ جو رات کو منیٰ پہنچ جاتے ہیں،
وہ اگرآدھی رات کے بعد کنکریاں ماریں،
تو امام عطاء ابن ابی لیلیٰ،
اورشافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اما مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور احناف کے نزدیک طلوع فجر کے بعد پھینکنا جائز ہے،
لیکن امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ۔
ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔
اور نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک طلوع شمس کے بعد ہی رمی کرنا ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3130