صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
56. باب بَيَانِ أَنَّ السُّنَّةَ يَوْمَ النَّحْرِ أَنْ يَرْمِيَ ثُمَّ يَنْحَرَ ثُمَّ يَحْلِقَ وَالاِبْتِدَاءِ فِي الْحَلْقِ بِالْجَانِبِ الأَيْمَنِ مِنْ رَأْسِ الْمَحْلُوقِ:
باب: قربانی کے دن کنکریاں مارنے، پھر قربانی کرنے، پھر سر منڈانے، اور دائیں جانب سے سر منڈانے کی ابتداء کرنا سنت ہے۔
حدیث نمبر: 3155
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَسَّانَ ، يُخْبِرُ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ، وَنَحَرَ نُسُكَهُ، وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ: اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ ".
ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی (کہا) میں نے ہشام بن حسان سے سنا وہ ابن سیرین سے خبر دے رہے تھے انھوں نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں اپنی قربانی (کے اونٹوں) کو نحر کیا اور پھر سر منڈوانے لگے تو آپ نے اپنے سر کی دائیں جا نب مونڈنے والے کی طرف کی تو اس نے اس طرف کے بال اتار دیے آپ نے طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا یا اور وہ (بال) ان کے حوالے کر دیے۔پھر آپ نے (سر کی) بائیں جا نب اس کی طرف کی اور فرمایا۔ (اس کے) بالاتاردو۔اس نے وہ بال اتاردیے تو آپ نے وہ بھی ابو طلحہ کو دے دیے اور فرمایا ان (بائیں طرف والے بالوں) کولوگوں میں تقسیم کر دو
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں، اور اپنی قربانیاں نحر کیں تو سر منڈوایا، سر مونڈنے والے کے سامنے اپنی دائیں طرف کی، اس نے اسے مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو طلب کیا، اور وہ بال اسے دے دئیے، پھر حجام کے سامنے بائیں طرف کر کے فرمایا: مونڈ۔ اس نے اسے بھی مونڈ دیا، وہ بال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو دئیے، اور فرمایا: لوگوں میں تقسیم کر دو۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1981  
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ابوطلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1981]
1981. اردو حاشیہ:
➊ حجامت کے مسئلے میں بھی شرعی ہدایت یہی ہے کہ پہلے دائیں جانب سے بال کاٹے جائیں۔
➋ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک بال تھے جو صحابہ میں بطور تبرک متداول رہے۔ ان سے شفا بھی حاصل کی جاتی تھی۔ اور یہ صفت صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کے بالوں کوحاصل رہی ہے۔ آج کل کئی مقامات پر سوئے مبارک بیان کیے جاتے ہیں چاہے کہ ان کی موثوق سند پیش کی جائے۔ مگر فی الواقع اس کا پیش کیا جانا ناممکن ہے۔
➌ حصول تبرک کوئی قیاس اور من پسند مسئلہ نہیں اس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ مبارک اشیا مبارک مقامات اور مبارک اوقات وہی ہیں جو احادیث صحیحہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو تبرک کےمعاملے میں متنبہ اور حساس ہونا چاہے۔ یعنی جس بزرگ سمجھ لیا اس کی ہر چیز کو متبرک سمجھنا شروع کردیا یہ یکسر غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بڑھ کر امتیوں میں کون بزرگ ہو سکتاہے؟کوئی نہیں۔ لیکن صحابہ نے صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بالوں وغیرہ کو متبرک سمجھا اور آپ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق تک کی کسی چیز کومتبرک نہیں سمجھا۔ اور فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے نہ کہ آج کل کے شرک وبدعت زدہ لوگوں کا۔
➍ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک کی اہمیت کا اندازہ جلیل القدر مخضرم تابعی امام عبیدہ بن عمرو سلمان ﷫ کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو امام المجدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ﷫ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: «لان تكون عندي شعرة منه احب الي من الدنيا ومافيها» (صحيح البخاري، الوضوء، حدیث170) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک میرے پاس ہو تو یہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ اکبرکبیرا-ہم ان پاکیزہ جذبات واحساسات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، نہ ان کی قدرو منزلت کااندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ معیار کمال درجے کا معیار محبت ہے۔ یا اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں بھی ایسی ہی کمال درجے کی محبت عطا فرما۔آمین۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس خوبصورت قول پر جو عمدہ تعلیق لگائی ہے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے(تفصیل کےلیے دیکھیئے: (سیراعلام النبلاء جلد4 ص42، 43]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1981   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3155  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قربانی کے دن حج کرنے والے نے چار کام کرنے ہوتے ہیں،
اور ان میں سنت طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مزدلفہ سے آ کر جمرہ عقبہ پر رمی کرے،
پھرقربانی کرے،
پھر سر منڈوائے یا بال کٹوائے،
اس کے بعد مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرے،
متمتع اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے گا،
مفرد اور قارن اگر طواف قدوم کے بعد سعی کر چکے ہیں،
تو انھیں اب سعی کی ضرورت نہیں ہے،
اور آئمہ اربعہ کے نزدیک سنت یہی ہے کہ سر منڈوانے والے کے سر کے دائیں جانب سے سر مونڈنے کا آغاز کیا جائے گا،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بائیں جانب سے آغاز منقول ہے،
لیکن متأخرین احناف کے نزدیک امام صاحب نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عظمت و تکریم کے حامل تھے،
اس لیے ان کو لوگوں میں بانٹ دیا گیا،
لیکن اب یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے،
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عمر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مونڈے تھے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف کے بال دوسرے لوگوں میں بانٹنے کے لیے ابو طلحہ کو دئیے تھے،
اور بائیں طرف کے بال ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے دئیے تھے،
اس لیے ایک روایت میں اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دینے کا تذکرہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3155