صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
58. باب اسْتِحْبَابِ طَوَافِ الإِفَاضَةِ يَوْمَ النَّحْرِ:
باب: قربانی کے دن طواف افاضہ کرنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 3165
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى "، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفِيضُ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَرْجِعُ فَيُصَلِّي الظُّهْرَ بِمِنًى وَيَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ.
نا فع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر بانی کے دن طواف افاضہ کیا۔پھر واپس آکر ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کی۔ نافع نے کہا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کے دن طواف افاضہ کرتے پھر واپس آتے ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کرتے اور بیان کیا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ نحر کے دن کیا، پھر واپس آ کر نماز ظہر منیٰ میں پڑھی، نافع بیان کرتے ہیں، کہ حضرت ابن عمرضی اللہ تعالیٰ عنہما طواف افاضہ، نحر کے دن کرتے تھے، (یوم النحر سے مراد دس 10 ذوالحجہ کا دن ہوتا ہے) پھر واپس آ کر ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہی بتاتے تھے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1998  
´طواف افاضہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر منی میں ظہر ادا کی یعنی (طواف سے) لوٹ کر۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1998]
1998. اردو حاشیہ: عرفات اور مزدلفہ سے لوٹنے کے بعد دسویں تاریخ کو یا اس کے بعد کسی وقت بیت اللہ کاطواف کرنا فرض ہے۔قرآن مجید کا حکم ہے۔(وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ)(الحج۔29) انھیں چاہیے کہ قدیم گھر کاطواف کریں اس طواف کوطواف افاضہ طواف زیارہ اور طواف رکن بھی کہتے ہیں۔افضل یہی ہے کہ دسویں زی الحجہ کو کرلیا جائے۔یا ایام تشریق میں کسی وقت۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مکہ سے واپس لوٹ کر منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھی جبکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایات میں ہے۔کہ آپ نے مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔بعد ازاں آپ منیٰ میں تشریف لائے۔دونوں روایتیں سندا صحیح ہیں۔اور محدثین نے اپنے اپنے انداز میں ترجیح دی ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر نے منیٰ میں نماز پڑھنے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔اور اس کی کوئی وجوہ ہیں۔(الف) اگر آپ مکہ میں ظہر کی نماز پڑھتے تو منیٰ میں اپنا کوئی نائب بنا کر جاتے جو انہیں ظہر کی نماز پڑھاتا اور یہ منقول نہیں ہے۔اور نائب کا نماز پڑھانا محال ہے۔ اور کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔حالانکہ ایک سفر میں آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب بنایا تھا۔جبکہ آپ بنو عمرو بن عوف میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے اسی طرح اس ایام مرض میں بھی آپ نے ان کو اپنا امام بنایا تھا۔اور یہ سوال کہ مکہ میں آپ نے نائب نہیں بنایا۔تو اس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں تھی۔کیونکہ ان لوگوں کےلئے امام پہلے سے مقرر شدہ تھا جو انہیں نمازیں پڑھاتا تھا۔ (ب) اگرآپ مکہ میں نماز پڑھاتے۔تو اہل مکہ پوری نماز پڑھتے۔ کیونکہ ان پر اتمام واجب تھا اور نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کو حسب دستور یہ نہیں فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو ہم لوگ مسافر ہیں۔ جیسے کے فتح مکہ کے موقع پر کہا تھا۔ (ج) یہ ممکن ہے کہ فتح مکہ میں آپ کا نماز پڑھنا یا پڑھانا رکعات طواف سے مشتبہ ہوگیا۔بالخصوص کے لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔اور آپ کی اقتداء بھی کرتے تھے۔دیکھنے والے نے اس کو نماز ظہر سمجھا ہو۔مگرآپ کا منیٰ میں نماز پڑھنا کسی طور پرمشتبہ نہیں ہوسکتا۔بالخصوص جبکہ آپ حجاج کے امام تھے۔آپ کےعلاوہ کوئی اور نماز پڑھانے کامجاز ہی نہ تھا۔اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ انھیں امام کے بغیر چھوڑ جایئں۔ اور وہ اکیلےاکیلے نماز پڑھیں۔یہ انتہائی بعید از قیاس بات ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے کچھ محدثین نے یہ سمجھا ہے کہ نبی کریمﷺنے منیٰ میں نماز ظہر ادا کی۔بعد ازاں بیت اللہ تشریف لے گئے۔جیسے کہ وہ کہتی ہیں کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھ کر دن کےآخری حصہ میں طواف افاضہ کیا۔ پھر منیٰ واپس آگئے۔دیکھئے۔(تہذیب ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1998