صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
59. باب اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ يَوْمَ النَّفْرِ وَالصَّلاَةِ بِهِ:
باب: کوچ کے دن وادی محصب میں اترنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 3166
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ شَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى، قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟، قَالَ: بِالْأَبْطَحِ، ثُمَّ قَالَ: افْعَلْ مَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ.
عبد العزیز بن رفیع سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا میں نے کہا: مجھے ایسی چیز بتا یئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو (اور یاد رکھی ہو) آپ نے تر ویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو ظہر کی نماز کہاں ادا کی تھی؟ انھوں نے بتا یا منیٰ میں۔میں نے پو چھا: آپ نے (منیٰ سے) واپسی کے دن عصر کی نماز کہاں ادا کی؟انھوں نے کہا اَبطح میں۔پھر کہا (لیکن تم) اسی طرح کرو جیسے تمھا رے امراء کرتے ہیں۔
عبدالعزیز بن رفیع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، مجھے ایسی بات کی روشنی میں بتائیے، جو آپ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) پانی پلانے کے دن نماز ظہر کہاں ادا کی؟ انہوں نے جواب دیا، منیٰ میں، میں نے پوچھا، آپ نے روانگی کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ جواب دیا، ابطح (محصب) میں، پھر فرمایا، تم اس طرح کرو جس طرح تمہارے امرا کرتے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 641  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بالترتیب اپنے اپنے وقت میں) ظہر اور عصر ‘ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر مقام محصب پر تھوڑا سو گئے پھر سوار ہو کر بیت اللہ کی جانب تشریف لے گئے اور طواف کیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 641]
641لغوی تشریح:
«رقد رقدة» یعنی تھوڑا سا ہو گئے۔
«بالمحصب» یہ اس جگہ کا بیان ہے جہاں آپ نے نمازیں ادا فرمائیں اور اسراحت بھی فرمائی اور یہ کوچ کا آخری دن تھا، یعنی ایام تشریق کا تیسرا دن۔
«محصب» بروزن «محمد» ہے۔ جگہ کا نام ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ وہ بہ نسبت مکہ کے منیٰ کے قریب ہے۔ اسے ابطح اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔
«فطاف به» اس سے طواف وداع مراد ہے اور یہ حج کاسب سے آخری طواف ہوتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 641   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1912  
´مکہ سے منیٰ جانے کا بیان۔`
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا اور کہا: مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کہاں پڑھی؟ فرمایا: ابطح میں، پھر کہا: تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1912]
1912. اردو حاشیہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مسائل واجب امور میں سے نہیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا معمول اورسنت ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم کسی عذر کے باعث ان پر عمل نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں۔مباحات میں اولوالامر کی متابعت اور ان کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1912   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3166  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
طواف افاضہ جسے طواف زیارت اور طواف رکن بھی کہتے ہیں،
جس کے بغیر حج ہی نہ ہو گا اس کا مسنون وقت قربانی کے روز رمی،
قربانی اور حلق یا تقصیر کے بعد ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز طواف افاضہ کرنے کے بعد ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کی،
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نماز ظہر مکہ میں پڑھ چکے تھے یا مکہ میں نماز ظہر کے وقت پڑھی جانے والی نماز کی دو رکعتیں تھیں،
پھر منیٰ واپس آ کر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک طواف افاضۃ کا وقت قربانی کے روز طلوع فجر کے بعد شروع ہو جاتا ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آخری وقت 12 ذوالحجہ ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک 13ذوالحجہ اس کے بعد آ نے کی صورت میں ایک جانور کی قربانی ضروری ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ تاخیر پر قربانی ضروری نہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین (ابو یوسف و محمد)
کے نزدیک اس کا وقت قربانی کے روز آدھی رات سے شروع ہو جاتا ہے اور اس کے آخری وقت کا تعیین نہیں ہے تاخیر کی وجہ سے اس پر قربانی نہیں ہے لیکن طواف زیارت کے بغیر مکمل طور پر حلال نہیں ہو سکے گا،
اگر وہ وطن طواف زیارت کیے بغیر چلا گیا،
تو احرام باندھ کر واپس آ کر جب چاہے طواف زیارت کرے گا،
آئمہ اربعہ کا یہی موقف ہے حسن بصری کے نزدیک اس کو اگلے سال حج کرنا ہو گا۔
اگر اس طواف زیارت کے بغیر عورت سے تعلقات قائم کر لیے تو اس کے ذمہ دم (قربانی)
کا جانور ہو گا۔
(المغنی لا بن قدامہ ج5،
ص245الدکتور التر کی)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3166