صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ -- کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
23. بَابُ مَا يُقَالُ إِذَا أَمْطَرَتْ:
باب: مینہ برستے وقت کیا کہے۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَصَيِّبٍ الْمَطَرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: صَابَ وَأَصَابَ يَصُوبُ.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (سورۃ البقرہ میں) «كصيب‏» (کے لفظ «صيب‏») سے مینہ کے معنی لیے ہیں اور دوسروں نے کہا کہ «صيب‏ صاب يصوب» سے مشتق ہے اسی سے ہے «اصاب» ۔
حدیث نمبر: 1032
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ، قَالَ: اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا"، تَابَعَهُ الْقَاسِمُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَعُقَيْلٌ، وَرَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ نَافِعٍ.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبیداللہ عمری نے نافع سے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے «صيبا نافعا» اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔ اس روایت کی متابعت قاسم بن یحییٰ نے عبیداللہ عمری سے کی ہے اور اس کی روایت اوزاعی اور عقیل نے نافع سے کی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3889  
´بادل اور بارش دیکھنے کے وقت کیا دعا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب آسمان کے کسی کنارے سے اٹھتے بادل کو دیکھتے تو جس کام میں مشغول ہوتے اسے چھوڑ دیتے، یہاں تک کہ اگر نماز میں (بھی) ہوتے تو بادل کی طرف چہرہ مبارک کرتے، اور یہ دعا ما نگتے: «اللهم إنا نعوذ بك من شر ما أرسل به» اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس چیز کے شر سے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے پھر اگر بارش شروع ہو جاتی تو فرماتے: «اللهم سيبا نافعا» اے اللہ جاری اور فائدہ دینے والا پانی عنایت فرما، دو یا تین مرتبہ یہی الفاظ دہراتے اور اگر اللہ تعالیٰ بادل ہٹا دیتا اور بار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بارش اللہ کی ر حمت ہے لیکن اللہ کا عذاب بھی ہوسکتی ہے۔
اس لئے بادل دیکھ کر اللہ کی رحمت کی اُمید کے ساتھ ساتھ اس کے عذاب سے پناہ بھی مانگنی چاہیے۔

(2)
بارش انسان کےلئے انتہائی ضروری ہونے کے باجود اس میں نقصان کا پہلو بھی موجود ہے۔
اس لئے بارش کے نفع مند ہونے کی دعا کرنا ضروری ہے۔

(3)
بادل کا برسے بغیر چھٹ جانا اس لئے اللہ کا انعام ہے۔
کہ اس کے عذاب ہونے کا خطرہ ٹل گیا-
(4)
بندے کوہر حال میں اللہ سے امید کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف بھی رکھنا چاہیے اور ان مواقع پر یہ عایئں پڑھنے کاالتزام کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3889   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3257  
´سورۃ الاحقاف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب برسنے والا کوئی بادل دیکھتے تو آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے (اندر آتے باہر جاتے) مگر جب بارش ہونے لگتی تو اسے دیکھ خوش ہو جاتے، میں نے عرض کیا: ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (صحیح) جانتا تو نہیں شاید وہ کچھ ایسا ہی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا» جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یہ بادل ہم پر برسنے آ رہا ہے، بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3257]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب انہوں نے اسے بحیثیت بادل اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا:
یہ بادل ہم پر برسنے آ رہا ہے،
بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی (آندھی ہے کہ جس میں نہایت دردناک عذاب ہے) (الأحقاف: 24)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3257   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5098  
´جب آندھی آئے تو کیا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے (ہلکا سا مسکراتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5098]
فوائد ومسائل:

زور سے کھل کھلا کر اور ازحد منہ کھول کر ہنسنا نامناسب اور وقار کے منافی ہے۔
چاہیے کہ ایسے مسکرانے کو اپنی عادت بنایا جائے جو سنت ہے۔


تیز ہوا (آندھی) یا بادل کو دیکھ کر اس کی خیر کی دعا کرنی چاہیے اور عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔
جیسے کہ اوپر بیان ہوا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5098   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1032  
1032. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو دعا کرتے: اے اللہ! نفع آور بارش برسا۔ اس حدیث کی متابعت قاسم بن یحییٰ نے عبیداللہ عمری سے کی ہے، نیز اسے امام اوزاعی اور عقیل نے حضرت نافع سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1032]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ سے مذکورہ روایت وضاحت کے ساتھ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان کے افق پر کوئی بادل وغیرہ دیکھتے تو کام کاج ترک کر دیتے، اگر بادل چھٹ جاتے تو اللہ کی حمد کرتے اور اگر بارش برستی تو فرماتے:
اے اللہ! اسے ہمارے لیے نفع آور بنا دے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5099)
ایک روایت میں ہے کہ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ گھبرا جاتے، کبھی اندر جاتے اور کبھی باہر، گھبراہٹ آپ کے چہرے سے نمایاں ہوتی۔
(صحیح مسلم، صلاة الاستسقاء، حدیث:
(899) (2)
امام اوزاعی کی روایت کو عمل اليوم والليلة میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
اس میں نافعا کے بجائے ھنیئا کے الفاظ ہیں جس کے معنی خوش گوار ہیں۔
عقیل کی روایت کو امام دارقطنی ؒ نے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 668/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1032