صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
80. باب النُّزُولِ بِمَكَّةَ لِلْحَاجِّ وَتَوْرِيثِ دُورِهَا:
باب: حاجیوں کا مکہ میں اترنا اور مکہ کے گھروں کی وارثت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3295
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ مِهْرَانَ: حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ وَذَلِكَ فِي حَجَّتِهِ حِينَ دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ فقَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا ".
معمر نے زہری سے انھوں نے علی بن حسین سے انھوں نے عمرو بن عثمان سے اور انھوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، (انھوں نے کہا) میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کل کہاں قیام کریں گے؟یہ بات آپ کے حج کے دورا ن میں ہو ئی جب ہم مکہ کے قریب پہنچ چکے تھےتو آپ نے فرمایا: "کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہے!"
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کل کہاں قیام کریں گے؟ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقع کی بات ہے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچ گئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان یا قیام گاہ چھوڑی ہے؟۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2942  
´مکہ میں داخل ہونے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ یہ بات آپ کے حج کے دوران کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر باقی چھوڑا ہے؟ ۱؎ پھر فرمایا: ہم کل «خیف بنی کنانہ» یعنی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی، اور وہ یہ تھی کہ بنی کنانہ نے قریش سے عہد کیا تھا کہ وہ بنی ہاشم سے نہ تو شادی بیاہ کریں گے اور نہ ان سے تجارتی لین دین ۲؎۔ زہری کہتے ہیں کہ «خیف» وادی کو کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2942]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس واقعہ میں قبائل کے جس معاہدے کا ذکر ہے اسی کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین سال تک شعب بنی ہاشم میں رہنا پڑا تھا جسے شعب ابی طالب بھی کہتے ہیں۔

(2)
مزید فوائد کے لیے ملاحظہ کیجیے (حدیث: 2730)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2942   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2910  
´کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔‏‏‏‏ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2910]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ابو طالب کی وفات کے موقع پر عقیل اسلام نہ لائے تھے، اسی وجہ سے وہی اس کے وارث ہوئے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔
اس لئے وہ اختلاف دین کی وجہ سے اپنے باپ کے وارث نہ بنے۔
اور عقیل جوں ہی عبد المطلب کی جایئداد کے مالک بنے۔
انہوں نے اس کو فروخت کر دیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2910