صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ -- کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
27. بَابُ مَا قِيلَ فِي الزَّلاَزِلِ وَالآيَاتِ:
باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1036
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ الْمَالُ فَيَفِيضُ".
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد (عبداللہ بن ذکوان) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی اور «هرج» سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا۔
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 1  
´علم کا قبض کر لیا جانا، فتنوں کا ظہور`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم قبض کر لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گئے اور ہرج بہت ہو جائے گا . . . [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 1]
فوائد:
مذکورہ حدیث میں قیامت کی چند نشانیوں کا تذکرہ ہے۔
➊۔۔۔ علم قبض کر لیا جائے گا جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ علماء کے ختم ہونے سے علم ختم ہو جائے گا۔ دیکھئے: [حديث: 318]
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ لوگوں سے چھین کر علم کو قبض نہیں کرتا، بلکہ علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھاتا ہے حتیٰ کہ (قریب قیامت) کوئی بھی عالم نہیں بچے گا۔ یہاں تک کہ لوگ جہلاء کو علماء سمجھیں گے جو بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ وہ خود گمراہ ہوں گے۔ اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ [مسلم، كتاب العلم، رقم؛6796]
➋۔۔۔ فتنے ظاہر ہوں گے، فتنے سے مراد ہر ایک آزمائش ہے۔
دینی ہو یا دنیاوی، بعض اوقات بیوی، بچے بھی فتنہ بن جاتے ہیں۔
اور اللہ ذوالجلال نے ان کے فتنے سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [64-التغابن: 15]
بلاشبہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے۔
کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«ذوقوا فتنتكم۔۔۔»
اس آیت مبارکہ میں فتنے سے مراد گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے۔ مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی، پھوٹ و نا اتفاقی، بدعت کا پھیلنا اور جہاد میں سستی وغیرہ۔
معلوم ہوا علامات قیامت میں سے قتل کی کثرت بھی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے، یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی۔ جب تک لوگوں پر یہ دن نہ آ جائے کہ قاتل کو پتہ نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا ہے؟ اور مقتول کو بھی پتہ نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے؟ [مسلم، رقم؛ 2908]
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4047  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: قتل، قتل، قتل۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال کی کثرت امن وسکون کا باعث نہیں جب کہ ایمان وتقوی نہ ہو۔

(2)
فتنوں سے مراد مختلف قسم کے تعصبات بھی ہوسکتے ہیں جو قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں اور ایسی چیزیں بھی جو ایمان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
خصوصاً جب کہ لوگ دین کے علم سے بھی محروم ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4047   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1036  
1036. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلے بکثرت آئیں گے، وقت کم ہوتا جائے گا، فتنوں کا ظہور ہو گا اور قتل و غارت عام ہو گی، یہاں تک کہ تمہارے ہاں مال و دولت کی بہتات ہو گی، یعنی وہ عام ہو جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1036]
حدیث حاشیہ:
سخت آندھی کا ذکر آیا تو اس کے ساتھ بھونچال کا بھی ذکر کر دیا، دونوں آفتیں ہیں۔
بھونچال یا گرج یا آندھی یا زمین دھنسنے میں ہر شخص کو دعا اوراستغفار کرنا چاہیے اور زلزلے میں نماز بھی پڑھنا بہتر ہے۔
لیکن اکیلے اکیلے۔
جماعت اس میں مسنون نہیں اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ زلزلے میں انہوں نے جماعت سے نماز پڑھی تو یہ صحیح نہیں ہے۔
(مولانا وحید الزماں مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1036   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1036  
1036. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلے بکثرت آئیں گے، وقت کم ہوتا جائے گا، فتنوں کا ظہور ہو گا اور قتل و غارت عام ہو گی، یہاں تک کہ تمہارے ہاں مال و دولت کی بہتات ہو گی، یعنی وہ عام ہو جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1036]
حدیث حاشیہ:
(1)
زلازل کا وقوع کبھی شدت ہوا اور کثرت بارش کے موقع پر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے استسقاء کے عنوان کے تحت انہیں بیان کیا ہے۔
زلزلوں کا کثرت سے آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اس لیے تضرع اور انکسار کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔
زلزلے کے وقت کوئی خاص دعا یا طریقۂ نماز احادیث میں نہیں ہے۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ وقت کم ہوتا جائے گا۔
اس کے متعلق شارحین نے مختلف تشریحات بیان کی ہیں:
٭ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کہ حقیقت کے اعتبار سے دن رات چھوٹے ہو جائیں گے۔
٭ ان کی برکت ختم ہو جائے گی۔
دن رات ایسے گزریں گے کہ کوئی پتہ نہیں چلے گا۔
٭ لذات و خواہشات کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ رات دن کا احساس ختم ہو جائے گا۔
٭ کثرت مصائب کی وجہ سے حواس معطل ہو جائیں گے، پھر پتہ نہیں چلے گا کہ رات کب آئی اور دن کب ختم ہوا۔
٭ دور حاضر میں اس تقارب کی صورت یہ ہے کہ شہروں اور ملکوں کی مسافت تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی وجہ سے بہت قریب ہو چکی ہے، پھر الیکٹرانک میڈیا، یعنی انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے سے تمام روئے زمین کے لوگ گویا ایک مکان میں جمع ہیں جس سے جب چاہیں رابطہ کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آئندہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جس کا آج ہمیں شعور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾ )
اور وہ کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جنہیں (آج)
تم نہیں جانتے۔
(النحل8: 16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1036