صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
86. باب التَّرْغِيبِ فِي سُكْنَى الْمَدِينَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى لأْوَائِهَا:
باب: مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3336
حدثنا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ وُهَيْبٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ حَدَّثَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ أَصَابَهُمْ بِالْمَدِينَةِ جَهْدٌ وَشِدَّةٌ، وَأَنَّهُ أَتَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فقَالَ لَهُ: إِنِّي كَثِيرُ الْعِيَالِ، وَقَدْ أَصَابَتْنَا شِدَّةٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْقُلَ عِيَالِي إِلَى بَعْضِ الرِّيفِ، فقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : لَا تَفْعَلِ الْزَمِ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّا خَرَجْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَظُنُّ أَنَّهُ قَالَ: حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ، فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ، فقَالَ النَّاسُ: وَاللَّهِ مَا نَحْنُ هَا هُنَا فِي شَيْءٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ، مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مَا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِكُمْ، مَا أَدْرِي كَيْفَ، قَالَ: " وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ، أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ إِنْ شِئْتُمْ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَ لَآمُرَنَّ بِنَاقَتِي تُرْحَلُ، ثُمَّ لَا أَحُلُّ لَهَا عُقْدَةً حَتَّى أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، فَجَعَلَهَا حَرَمًا، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا، أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ، وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ، وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنَ الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ، إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا "، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: " ارْتَحِلُوا "، فَارْتَحَلْنَا، فَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَالَّذِي نَحْلِفُ بِهِ أَوْ يُحْلَفُ بِهِ، الشَّكُّ مِنْ: حَمَّادٍ مَا وَضَعَنْا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَمَا يَهِيجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ.
حماد بن اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ہمیں حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں میرے والد نے وہیب سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نےمہری کےمولیٰ ابو سعید سے حدیث بیان کی کہ انھیں مدینہ میں بدحالی اورسختی نےآلیا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: میں کثیر العیال ہوں اورہمیں تنگدستی نے آلیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ میں ا پنے افراد خانہ کو کسی سر سبز وشاداب علاقے کی طرف منتقل کردوں۔تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نےکہا: ایسا مت کرنا، مدینہ میں ہی ٹھہرے رہو، کیونکہ ہم اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پر) نکلے۔میرا خیال ہے انھوں نےکہا۔حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا: ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں ٹھہر ے ہوئے، اور ہمارے افراد خانہ پیچھے (اکیلے) ہیں ہم انھیں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟"۔میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکس طرح فرمایا۔"اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں۔"یا (فرمایا) "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں نےارادہ کیایا (فرمایا) اگرتم چاہو۔میں نہیں جانتا کہ آپ نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا: میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم د وں، پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جاؤں۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اے اللہ!بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا، اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے اور اس میں چارے کے سوا (کسی اورغرض سے) اس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید عطا) کردے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!مدینہ کی کوئی گھاٹی اور درہ نہیں مگر اس پر دوفرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کریں گے یہاں تکہ کہ تم اس میں واپس آجاؤ۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا"کوچ کرو۔"تو ہم نے کوچ کیا اور مدینہ آگئے۔اس ذات کی قسم جس کی ہم قسم کھاتے ہیں! یا جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔یہ شک حماد کی طرف سےہے۔مدینہ میں داخل ہوکر ہم نے اپنی سواریوں کے پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کردیا اور اس سے پہلے کوئی چیز انھیں مشتعل نہیں کررہی تھی۔
مہری رحمۃ اللہ علیہ کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت ہے کہ مدینہ میں گزران کی مشکل اور شدت سے دوچار ہونا پڑا تو وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا کہ میرے بال بچے بہت ہیں، اور ہم مشقت و تنگی میں مبتلا ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں، اپنے اہل و عیال کو کسی سرسبز و شاداب علاقہ میں منتقل کر لوں، تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ایسے نہ کر، مدینہ کو ہی لازم پکڑ، کیونکہ ہم نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، میرا خیال ہے، انہوں نے کہا، حتی کہ ہم عسفان پہنچ گئے، تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا، ہم یہاں بے مقصد یا بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور پیچھے ہمارے بال بچوں کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے، ہم ان کے بارے میں بے خوف نہیں ہیں اور یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہاری طرف سے یہ کیا بات پہنچی ہے؟ (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا الفاظ فرمائے) اس ذات کی قسم، جس کی میں قسم اٹھاتا ہوں، یا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں پختہ ارادہ کر چکا ہوں، یا اگر تم چاہو (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کیا کہا) میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم دوں اور جب تک مدینہ نہ پہنچ جاؤں، اس کی کوئی گرہ نہ کھولوں (یعنی مدینہ تک مسلسل سفر کروں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کی حرمت کا اعلان کیا، میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں طرف کے دروں (پہاڑوں) کے درمیان کا علاقہ واجب الاحترام ہے، اس میں خون ریزی نہ کی جائے اور نہ اس میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے، اور کسی درخت کے پتے جانوروں کی ضرورت کے سوا نہ جھاڑے جائیں، اے اللہ! ہمارے شہر میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے مد میں برکت ڈال، ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے مد میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ! ہمارے شہر مدینہ میں برکت نازل فرما، برکت کے ساتھ دو برکتیں اور نازل فرما، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس کی قسم! مدینہ کی کوئی گھاٹی یا درہ نہیں ہے، جس پر تمہاری واپسی تک دو فرشتے پہرہ نہ دے رہے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: کوچ کرو۔ تو ہم چل پڑے، اور ہم مدینہ کی طرف بڑھے، پس اس ذات کی قسم! جس کی ہم قسم اٹھاتے ہیں، یا جس کی قسم اٹھائی جاتی ہے، حماد کو شک ہے کیا لفظ کہا، ہم نے مدینہ میں داخل ہو کر ابھی پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا، اس سے پہلے انہیں کسی چیز نے (حملہ پر) برانگیختہ نہیں کیا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3336  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رِيْف ج اَرْيَافْ:
سرسبزوشاداب علاقہ،
۔
(2)
خُلُوْف:
ان کی حفاظت ونگہداشت کرنے والا ان کے پاس کوئی نہیں ہے۔
(3)
مَأزَمْ:
پہاڑ درہ یا پہاڑی،
شعب،
گھاٹی،
درہ۔
(4)
شِعَبٌ:
پہاڑی راستہ۔
فوائد ومسائل:
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی غیر حاضری میں مدینہ منورہ کی حفاظت ونگرانی فرشتے کررہے تھے،
اس لیے کسی کو مدینہ پرحملہ کرنے کی جراءت نہ ہوئی،
حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی آمد سے پہلے کوئی ظاہری مانع یا رکاوٹ موجود نہ تھی۔
لیکن ان کی آمد کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ ہو گیا،
جب ظاہر طور پر حفاظت ونگہداشت کرنے والے آ چکے تھے تو فرشتوں کی حفاظت ختم ہو گئی اور حملہ ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3336