صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
86. باب التَّرْغِيبِ فِي سُكْنَى الْمَدِينَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى لأْوَائِهَا:
باب: مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3342
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ وَبِيئَةٌ، فَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَاشْتَكَى بِلَالٌ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكْوَى أَصْحَابِهِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ مَكَّةَ، أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا، وَمُدِّهَا، وَحَوِّلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ "،
عبدہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والدسے اورانھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ میں (ہجرت کر کے) آئے تو وہاں وبائی بخار پھیلا ہوا تھا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی بیماری دیکھی تو دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے مدینہ کو ہمارے لئے دوست کر دے جیسے تو نے مکہ کو دوست کیا تھا یا اس سے بھی زیادہ اور اس کو صحت کی جگہ بنا دے اور ہمیں اس کے صاع اور مد میں برکت دے اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ہم مدینہ پہنچے، تو وہ وبائی علاقہ تھا، (جس میں پردیسی کثرت سے بیمار ہو رہے تھے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیمار پڑ گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تو دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے، جیسے مکہ کی محبت رکھی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس کو صحت بخش شہر بنا دے، اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت ڈال دے، اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر دے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3342  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وَبِيْئَةٌ:
وبائی علاقہ،
جہاں لوگ جلد جلد موت کا شکار ہوتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت حجفہ میں یہود آباد تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا کے ادھر منتقل ہونے کی دعا فرمائی،
جس سے ثابت ہوا کفار کے لیے بیماری اور ہلاکت وتباہی کی دعا کرنا جائز ہے۔
اس طرح مسلمانوں کے لیے صحت وسلامتی کی اور مسلمانوں کے ملک کے لیے صحت افزا مقام ہونے کی دعا کرنا چاہیے۔
بعض متصوفین (تصوف زدہ)
کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دعا خلاف توکل ہے،
کیونکہ دعا بھی اللہ کے حضورجاتی ہے۔
جو افتقا رواحتیاج کی علامت ہے اور بہت بڑی عبادت ہے،
اس طرح معتزلہ کا اس کو خلاف تقدیر کہہ کر بے فائدہ کہنا صحیح نہیں ہے۔
کیونکہ دعا بھی تقدیر کا حصہ ہے۔
اور آپ کی دعا ہی کا یہ اثر ہے کہ حجفہ کا پانی بخار کا سبب بنتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3342