صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ -- حج کے احکام و مسائل
88. بَابُ : اَلْمَدِينَهُ تَنْفِي خَبَثَهَا وَتُسمَّي طَابَةُ وَّ طَيْبَهٌ
باب: مدینہ منورہ کا خبیث چیزوں سے پاک ہونے اور مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3353
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحُبَابِ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى، يَقُولُونَ: يَثْرِبَ وَهِيَ الْمَدِينَةُ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ "،
امام مالک بن انس نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی، انھوں نے کہا، میں نے ابو حباب سعید بن یسار سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ایک بستی (کی طرف ہجرت کرنے جانے) کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالب آجائےگی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، وہ مدینہ ہے، وہ (شریر) لوگوں کو نکال دے گی جیسے بھٹی لوہےکے میل کو باہر نکال دیتی ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایسی بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کا نام دیتے ہیں، حالانکہ وہ مدینہ ہے، وہ لوگوں کو اس طرح ممتاز کر دیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو الگ کر دیتی ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3353  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بستیوں کو کھا جائے گی،
کا مطلب ہے کہ جس طرح کھانے والا کھانے پر غلبہ پاتا ہے،
اس طرح یہاں سے اسلامی لشکر فتوحات حاصل کر کے مختلف ممالک پر غلبہ حاصل کریں گے اور اس سے ہرطرف دین کی نشر واشاعت ہوگی،
لوگ ان کے مطیع اورفرمانبردار ہوں گے،
جیسا کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں اس کا ظہور ہو چکا ہے۔
اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اہل مدینہ کو غلبہ اور رزق دوسرے علاقوں کی غنیمتوں اور خراج و فے سے حاصل ہو گا۔
منافق اوربد عقیدہ لوگ مدینہ کو یثرب کا نام دیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نام اس لیے پسند نہیں تھا،
کہ اگر اس کو تثریب سے ماخوذ مانیں تو اس کا معنی سرزنش وتوبیخ اورطعن وملامت ہوگا اوراگریثرب سے ماخوذ مانیں تو پھر معنی بگاڑ اور فساد ہو گا اوریہ دونوں باتیں ناپسندیدہ ہیں اور مدینہ کا لفظ اگردین سے ماخوذ مانیں،
تو دین کا معنی اطاعت وفرمانبرداری ہے اور یہ اہل اطاعت کا سب سے پہلا مرکز بنا تھا،
اور اگر اس کو مدن سے مانیں تو اس کا معنی اجتماع اور اکٹھ ہے اور یہ مسلمانوں کی ہجرت گاہ ہونے کی بنا پر ان کا مرکزتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھا نام رکھنا پسند فرماتے تھے اور بُرے نام ناپسند کرتے تھے۔

بعض حضرات نے بستیوں کو کھا جائےگی،
سے یہ استدلال کیا ہے کہ مدینہ منورہ مکہ معظمہ سے افضل ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے واپسی کے سفر میں فرمایا تھا:
(وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ،
وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ)

(اللہ کی قسم،
تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔
)
(ترمذی۔
ابن ماجہ)

دوسری روایت میں ہے:
(مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ،
وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ)
(ترمذی)
تو کس قدر پاکیزہ اور دل پسند شہر ہے،
اور تو مجھے کس قدر محبوب ہے۔
)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے مکہ معظمہ تمام روئے زمین میں سب سے افضل اور باعظمت مقام ہے اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں کا محل ہے،
اور قیامت تک کے لیے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور اس کے حرم کے آداب واحترام اور اس کی حرمت کو پامال کرنے پر سزا پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے،
اورحرم مدینہ کے بارے میں اختلاف موجود ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مدینہ افضل ہے اورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکہ مکرمہ افضل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3353