صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ -- کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
29. بَابُ لاَ يَدْرِي مَتَى يَجِيءُ الْمَطَرُ إِلاَّ اللَّهُ:
باب: اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں کہ بارش کب ہو گی۔
وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ.
‏‏‏‏ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
حدیث نمبر: 1039
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مِفْتَاحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ، لَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي غَدٍ، وَلَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي الْأَرْحَامِ، وَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، وَمَا يَدْرِي أَحَدٌ مَتَى يَجِيءُ الْمَطَرُ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، کل کیا کرنا ہو گا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہو گی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرما دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔
لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔
حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔
صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے:
لاحول ولا قوة إلا باللہ العظیم (مولانا وحید الزماں)
آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔
جو لوگ انبیاءاولیاء کے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پوری آیت شریفہ یہ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ ) (لقمان: 34)
یعنیبے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے (کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی)
اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔
قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔
اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔
الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔
اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1039   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1039  
1039. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: غیب کی چابیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا: کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا؟ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا؟ کسی کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا؟ کسی کو خبر نہیں کہ بارش کب برسے گی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1039]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مرکزی عنوان کے اختتام پر امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک نظریاتی اصلاح کو ضروری خیال کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بارش ہونے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ فلاں دن یا فلاں وقت یقینی طور پر بارش ہو جائے گی۔
محکمۂ موسمیات بھی اپنے ظن و تخمین سے پیش گوئی کرتا ہے جو غلط بھی ہو جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿٣٤﴾ )
بےشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔
وہی بارش برساتا ہے۔
وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے۔
نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ کل کیا کام کرے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں مرے گا۔
یقینا اللہ یہ سب کچھ خوب جاننے والا بڑا باخبر ہے۔
(لقمان34: 31) (2)
آج کل رحم مادر کے متعلق بہت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ جدید آلات کے ذریعے سے بچے کے نر اور مادہ ہونے کا پتہ لگا لیا جاتا ہے، حالانکہ ماں کے پیٹ میں صرف نر مادہ نہیں بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب فرشتہ جنین میں روح ڈالتا ہے تو اس کی عمر، اس کی روزی، وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت، الغرض یہ تمام باتیں بھی رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں، نیز جدید آلات سے جو کچھ پتہ لگایا جاتا ہے وہ بھی یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔
روز مرہ کے سینکڑوں واقعات و مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں۔
ویسے بھی اس طرح کی معلومات کے متعلق دلچسپی رکھنا بے سود ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کی پیش گوئی کی بنا پر گھر میں تقریبات کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں کہ اچانک لڑکے کے بجائے لڑکی کی پیدائش ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے، اس لیے الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے سے معلومات لینا فضول شوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1039