صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
3. باب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ ثُمَّ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ:
باب: متعہ کے حلال ہونے کا پھر حرام ہونے کا پھر حلال ہونے کا اور پھر قیامت تک حرام رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3415
وحدثنا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قَالَ عَطَاء : قَدِمَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مُعْتَمِرًا، فَجِئْنَاهُ فِي مَنْزِلِهِ، فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ، ثُمَّ ذَكَرُوا الْمُتْعَةَ، فقَالَ: " نَعَمِ اسْتَمْتَعَنْا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ".
عطاء نے کہا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ عمرے کے لیے آئے تو ہم ان کی رہائش گاہ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھا، پھر لوگوں نے متعے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں متعہ کیا
عطاء رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما عمرہ کرنے کے لیے تشریف لائے تو ہم ان کی قیام گاہ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو لوگوں نے ان سے مختلف مسائل دریافت کیے، پھر متعہ کا ذکر چھیڑ دیا، تو انہوں نے کہا، ہاں۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں اس سے فائدہ اٹھایا۔ (متعہ کیا)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2980  
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر احرام باندھتے وقت صرف حج کی نیت کی گئی ہو تو بعد میں نیت تبدیل کرکے عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے۔

(2)
جس کام کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے نامناسب سمجھنا کوئی نیکی نہیں۔

(3)
جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج تمتع نہیں کرسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2980   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1787  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے ۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1787]
1787. اردو حاشیہ: حج کے دنوں میں یا حج کے ساتھ ہی عمرہ بغیر کسی اشکال کے جائز ہے جبکہ ایام جاہلیت میں اسے بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1787