صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
5. باب تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُحْرِمِ وَكَرَاهَةِ خِطْبَتِهِ:
باب: محرم کا نکاح حرام ہے اور پیغام دینا مکروہ۔
حدیث نمبر: 3450
حدثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ: أَرَادَ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ طَلْحَةَ بِنْتَ شَيْبَةَ بْنِ جُبَيْرٍ فِي الْحَجِّ، وَأَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْحَاجِّ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبَانٍ إِنِّي قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُنْكِحَ طَلْحَةَ بْنَ عُمَرَ، فَأُحِبُّ أَنْ تَحْضُرَ ذَلِكَ فقَالَ لَهُ أَبَانُ : أَلَا أُرَاكَ عِرَاقِيًّا جَافِيًا، إِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، يَقُولُ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ ".
سعید بن ابوہلال نے مجھے نبیہ بن وہب سے حدیث بیان کی کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر نے ارادہ کیا کہ حج (کے ایام) میں اپنے بیٹے طلحہ کا نکاح شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے کریں، ابان بن عثمان ان دنوں حج کے امیر تھے۔ تو انہوں نے ابان کی طرف پیغام بھیجا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ طلحہ بن عمر کا نکاح کر دوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس میں شریک ہوں تو ابان نے انہیں جواب دیا: کیا مجھے تم ایک اکھڑ عراقی جیسے دکھائی نہیں دے رہے! بلاشبہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "محرم (جو شخص حالت احرام میں ہو وہ) کسی کا نکاح نہ کرائے
نبیہ بن وھب سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر نے اپنے بیٹے طلحہ کی شادی شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے حج کے دنوں میں کرنے کا ارادہ کیا، اور ابان بن عثمان اس وقت امیر حج تھے، اس لیے ابان کی طرف پیغام بھیجا، میں نے طلحہ بن عمر کی شادی کرنے کا ارادہ کیا ہے، تو میں چاہتا ہوں، آپ بھی اس میں حاضر ہوں، تو ابان نے اسے جواب دیا، میرے خیال میں تم عراقی، نادان اور کم فہم ہو، میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محرم نکاح نہیں کرتا ہے، یعنی نکاح نہیں کر سکتا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1966  
´حالت احرام میں نکاح کا حکم۔`
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محرم نہ تو اپنا نکاح کرے، اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے، اور نہ ہی شادی کا پیغام دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1966]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں نکاح کرنا جائز نہیں۔

(2)
احرام والا آدمی خود شادی کرسکتا ہے، نہ کسی کے نکاح میں وکیل بن سکتا ہے۔
اپنی کسی بیٹی بہن وغیرہ کا سرپرست بن کر اس کا نکاح بھی نہیں کرسکتا-
(3)
احرام کی حالت میں کسی سے نکاح کی بات چیت بھی نہیں چلانی چاہیے۔
اگر کوئی غلطی کرے اور پیغام بھیج دے تو اسے جواب نہ دیا جائے۔

(4)
احرام حج کا ہو یاعمرہ کا ایک ہی حکم ہے-
(5)
احرام والی عورت کا نکاح بھی نہ کیا جائے، اور نہ اس کے لیے پیغام بھیجا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1966   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 598  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احرام والا نکاح نہ کرے اور نہ نکاح کرائے اور نہ منگنی کرے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 598]
598 لغوی تشریح:
«لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ» یعنی خود نکاح نہ کرے۔
«وَلَا يُنْكِحُ» یہ «اِنكاح» سے ماخوذ ہے۔ نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔
«وَلَاَ يَخْطُبُ» یہ «خِطْبَةَ» (خا مکسور) سے مشتق ہے، یعنی نہ منگنی کرے۔ نکاح کے لیے کسی عورت کا مطالبہ نہ کرے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں خود نکاح کرنا، کسی کا نکاح کرنا، کسی کو اپنے لیے یا کسی اور کے لیے شادی کا پیغام دینا ناجائز ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا تو یہ محض وہم ہے۔ اور اس وہم کی بنیاد غالباً یہ ہے کہ یہ کام احرام سے فارغ ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ویسے بھی اس وقت چھوٹے بچے تھے، اس لیے انہوں سمجھا کہ یہ نکاح حالت احرام میں ہو گیا تھا، نیز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مقام سرف میں نکاح کیا تھا اور ہم دونوں حلال تھے دیکھیے: [صحيح مسلم، النكاح، حديث: 1411]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 598   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3450  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عراقی کا نام دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے منکرین سنت یا سنت سے ناواقف لوگوں کی کثرت عراق میں تھی،
اس علاقہ کے لوگ سنت سے جاہل تھے،
جس طرح جنگلی اور بدوی لوگ سنت سے ناواقف ہوتے ہیں،
اس لیے عراق کی سر زمین تمام بدعتیوں کے لیے زرخیز رہی ہے،
اور اس سرزمین سے مختلف قسم کے فتنہ پرور لوگوں نے سر اٹھایا ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام لیث رحمۃ اللہ علیہ،
امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
امام اوزاعی وغیرہم رحمہم اللہ کا قول اس حدیث کے مطابق ہے،
اگر امام بخاری اس حدیث کو نہیں لائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک ضعیف ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3450