صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
5. باب تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُحْرِمِ وَكَرَاهَةِ خِطْبَتِهِ:
باب: محرم کا نکاح حرام ہے اور پیغام دینا مکروہ۔
حدیث نمبر: 3453
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حدثنا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حدثنا أَبُو فَزَارَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلَالٌ "، قَالَ: وَكَانَتْ خَالَتِي وَخَالَةَ ابْنِ عَبَّاسٍ.
یزید بن اصم سے روایت ہے، کہا: مجھے حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ احرام کے بغیر تھے۔ (یزید بن اصم نے) کہا: وہ میری بھی خالہ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بھی خالہ تھیں
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے، یزید بن الاصم کہتے ہیں کہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، میری اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کی خالہ ہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1843  
´محرم شادی کرے تو کیسا ہے؟`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا، اور ہم اس وقت مقام سرف میں حلال تھے (یعنی احرام نہیں باندھے تھے)۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1843]
1843. اردو حاشیہ: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (بنت حارث الحلالیہ)کے ساتھ رسول اللہﷺ کا نکاح سات ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا تھا۔ ان کے پہلے شوہر کا نام ابو رہم بن عبد العزی تھا۔حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نکاح کا پیغام بھیجا۔انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی ر ضا مندی کا اظہار کیا تو انہوں نے نکاح کردیا۔(الاصابہ]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1843   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3453  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح عمرۃ القضاء7ھ میں کیا ہے،
ظاہر ہے اس عمرہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یزید بن الاصم میں سے کوئی بھی نہ تھا،
اس لیے دونوں نے کسی دوسرے سے سنا ہے،
یزید بن الاصم براہ راست حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ،
آپ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےشادی حلال ہونے کی حالت میں کی،
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ یزید سے علم و فضل اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بہت بلند ہیں لیکن یہ کوئی فکری یا نظری یا استنباطی چیز نہیں ہے جس میں علم وجہ ترجیح بن سکے،
یہ تو ایک بات یا واقعہ کو یاد رکھنا ہے جس کو بسا اوقات ایک جاہل زیادہ یاد رکھتا ہے،
نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام رساں ابو رافع بھی یزید بن الاصم کی تائید کرتے ہیں اور اگر عمروبن دینار نے یزید بن الاصم پر (أَعرَابِي بَوَّال عَلٰى عَقَبَيه)
(کہ وہ جنگلی تھا اور اپنی ایڑھیوں پر پیشاب کرتا تھا)
کی پھبتی کسی ہے تو یہ بلا محل ہے،
کیونکہ جیسا کہ ہم بتا چکے واقعہ یاد رکھنے میں جنگلی عالم پر فائق ہو سکتا ہے،
نیز سعید بن المسیب سعید التابعین نے اس کے مقابلہ میں یہ کہا ہے جبکہ میمونہ جو صاحب واقعہ ہیں خود یہ فرماتی ہیں کہ میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی حلال ہونے کی حالت میں کی،
تو پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول وہم پر محمول ہوگا۔
(سبل السلام ج3ص170۔
جمعیہ احیاء التراث الاسلامی)

مزید برآں اگر بالفرض حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو ترجیح دی جائے تو یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے جو قولی ہے معارض ہے اور احناف کا اصول ہے قول اور فعل میں تعارض ہو تو قول کو ترجیح دی جائے گی،
بقول شاہ ولی اللہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو گا یا فعل قول سے منسوخ ہو گا۔
(حجۃ اللہ البالغہ ج1ص128)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3453