صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
10. باب تَزْوِيجِ الأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِيرَةَ:
باب: باپ کو روا ہے کہ چھوٹی لڑکی کنواری کا نکاح کر دے۔
حدیث نمبر: 3479
حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ "، قَالَت: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَوُعِكْتُ شَهْرًا فَوَفَى شَعْرِي جُمَيْمَةً، فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ، وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا، وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي، فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى الْبَابِ، فَقُلْتُ: هَهْ هَهْ حَتَّى ذَهَبَ نَفَسِي، فَأَدْخَلَتْنِي بَيْتًا، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِن الْأَنْصَارِ، فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَغَسَلْنَ رَأْسِي وَأَصْلَحْنَنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، فَأَسْلَمْنَنِي إِلَيْهِ ".
ابو اسامہ نے ہشام سے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور جب میں نو برس کی تھی تو میرے ساتھ گھر بسایا۔ کہا: ہم (ہجرت کے بعد) مدینہ آئے تو میں ایک مہینہ بخار میں مبتلا رہی۔ (اور میرے سر کے بال جھڑ گئے، جب صحت یاب ہوئی تو) پھر میرے بال (اچھی طرح سے اگ آئے حتیٰ کہ) گردن سے نیچے تک کی چٹیا بن گئی۔ (ان دنوں ایک روز میری والدہ) ام رومان رضی اللہ عنہ میرے پاس آئیں جبکہ میں جھولے پر (جھول رہی) تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں، انہوں نے مجھے زور سے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے دروازے پر لاکھڑا کیا، (سانس پھولنے کی وجہ سے) میرے منہ سے ھہ ھہ کی آواز نکل رہی تھی، حتیٰ کہ جب میری سانس (چڑھنے کی کیفیت) چلی گئی تو وہ مجھے ایک گھر کے اندر لے آئیں تو (غیر متوقع طور پر) وہاں انصار کی عورتیں (جمع) تھیں، وہ کہنے لگیں، خیر وبرکت پر اور اچھے نصیب پر (آئی ہو۔) تو انہوں (میری والدہ) نے مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے میرا سر دھویا، اور مجھے بنایا سنوارا، پھر میں اس کے سوا کسی بات پر نہ چونکی کہ اچانک چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی، جبکہ میں چھ برس کی تھی اور میرے ساتھ شب زفاف گزاری یا میری رخصتی اس وقت ہوئی، جبکہ میں نو برس کی تھی، اور جب ہم مدینہ پہنچے تو مجھے ایک ماہ تک بخار چڑھتا رہا (اور میرے بال گر گئے) میرے بال کانوں تک بڑھ گئے، تو (میری ماں) ام رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے پاس آئیں، جبکہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے پر تھی، اس نے مجھے بلند آواز سے بلایا، تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو گئی، اور مجھے معلوم نہیں تھا، وہ مجھ سے کیا چاہتی ہیں، تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لا کر دروازہ پر روک لیا، میں نے ہاہ، ہاہ کیا، حتی کہ میرا سانس پھولنا رک گیا، اور وہ مجھے گھر لے گئیں اور وہاں انصاری عورتیں موجود تھیں، انہوں نے کہا، خیر و برکت پاؤ، اور بہترین نصیبہ ہو، تو ماں نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، انہوں نے میرا سر دھویا اور میرا بناؤ سنگھار کیا، اور مجھے خوف زدہ صرف اس چیز نے کیا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1876  
´باپ نابالغ بچیوں کا نکاح کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے، مجھے بخار آ گیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھر بال بڑھ کر مونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں، ماں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ پر لا کھڑا کیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1876]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نابالغ بچی کا نکاح درست ہے۔

(2) (اُرْجُوحَة)
جھولا ایک بڑی لکڑی ہوتی ہے جو درمیان سے اونچی جگہ رکھی ہوتی ہے۔
بچے اس پر دونوں طرف بیٹھ جاتے ہیں۔
جب وہ ایک طرف سے نیچے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے اوپر اٹھ جاتی ہے۔
اسے انگریزی میں (See Saw)
سی سا کہتے ہیں۔

(3)
رخصتی کے وقت دلھن کو آراستہ کرنا مسنون ہے۔

(4)
رخصتی کے وقت ہمسایہ خواتین کا جمع ہونا اور تیاری میں مدد دینا درست ہے تاہم آج کل جو بے جا تکلفات اور رسم و رواج اختیار کر لیے گئے ہیں یہ خواہ مخواہ کی تکلیف ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

(5)
اسی طرح بیوٹی پارلروں میں بھیج کر دلھن کو آراستہ کروانا فضول خرچی بھی ہے، حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی بھی اور تغییر لخلق اللہ بھی۔

(6)
اسلام میں برات کا کوئی تصور نہیں یہ ہندوانہ رسم ہے۔
اسی طرح مروجہ جہیز بھی غیر اسلامی رسم ہے۔

(7)
نوسال کی بچی بالغ ہو سکتی ہے اور بالغ ہونے پر اس کی رخصتی بھی ہو سکتی ہے۔
اس میں کسی خاص عمر کی شرعا کوئی شرط نہیں، اس لیے موجودہ عائلی قوانین میں مخصوص عمر کی شرط لگائی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2121  
´کمسن بچیوں کے نکاح کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی، اس وقت سات سال کی تھی (سلیمان کی روایت میں ہے: چھ سال کی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے (شب زفاف منائی) اس وقت میں نو برس کی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2121]
فوائد ومسائل:
والد کو بالخصوص حق حاصل ہے کی کسی مصلحت کے پیش نظر چھوٹی عمر کی بچی کا نکاح کردے، مگر صحبت ومباشرت کے لئے بلوغت کا شرط ہونا عقل، نقل اور اخلاق کا لازمی تقاضا ہے اور چھوٹی عمرکا ازواج کسی طرح بھی منافی عقل وشرع نہیں ہے۔
اگر کسی کے مزاج پر اپنا ذوق اور علاقائی خاندانی رواج غالب ہو تو، کیا کہا جا سکتا ہے! ان چیزوں کو اصول شریعت نہیں بنایا جا سکتا اور پھر رسول ﷺاور ابو بکر صدیق رضی اللہ کے تعلقات شروع دن سے صدیقیت پر مبنی تھے، نبیﷺ ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکے تو ان کو اپنے اور قریب کر لیا۔
مزید برآں یہ نکاح بطور خاص وحی منام کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔
جیسا کہ حدث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
علمائے طب لکھتے ہیں کہ گرم علاقوں میں لڑکیاں نو سال کی عمر میں حائضہ ہو جاتی ہیں اور معتدل مناطق میں بارہ سال میں اور ٹھنڈے علاقوں میں سولہ سال میں بالغ ہوتی ہیں۔
دارقطنی اور بیہقی میں عباد بن عباد سے روایت ہے کہ ہماری ایک عورت اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔
امام بخاری ؒ نے اسی طرح ایک واقعہ اکیس سال عمر کا بیان کیا ہے۔
(ازحاشیہ بذل المجھود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2121   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3479  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بَنٰي بِي:
میری رخصتی عمل میں آئی،
کیونکہ عورت کے لیے شب زفاف الگ جگہ تیار کی جاتی تھی۔
(2)
وَعِكْتُ:
مجھے بخار آنے لگا۔
(3)
جُمَيْمَةٌ:
وہ بال جو کانوں تک پہنچتے ہوں۔
(4)
اُرْجُوْحَة:
جھولا،
وہ لمبی لکڑی جس کے درمیان حصہ کو زمین میں نصب لکڑی پر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے دونوں طرف بچیاں بیٹھ کر اس کو اوپر نیچے کرتی ہیں،
(5)
هَهْ هَهْ:
اکھڑی اکھڑی سانس کی آواز۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کسی مصلحت اور حکمت و ضرورت کے تحت نابالغہ بچی کی شادی بھی ہو سکتی ہے،
اور رخصتی اس وقت عمل میں آئے گی جب بچی خاوند کے پاس جا سکتی ہو،
اس کے لیے کسی عمر کی قید یا حد نہیں ہے،
کیونکہ عورتوں کی صحت و قوت مزاج اور قدو کاٹھ اور نشو ونما کی کیفیت یکساں نہیں ہوتی،
نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر متفق علیہ کی روایت کے مطابق چھ سال سے اوپر اور سات سال سے کم تھی،
اس لیے بعض روایات میں چھ سال آیا اور بعض میں کسر کو پورا کرتے ہوئے یا تغلیباً سات سال کہہ دیا گیا ہے۔
اس پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے کہ باپ دادا چونکہ انتہائی خیر خواہ اور مشفق و مہربان ہوتے ہیں اور وہ کبھی اپنے مفادات کو بچی کے نقصان و ضرر پر ترجیح نہیں دیتے،
اس لیے وہ نابالغہ لڑکی کا نکاح کر سکتے ہیں،
باپ دادا کے سوا اور کوئی ولی نابالغہ کی شادی نہیں کر سکتا،
اور بالغہ ہوجانے کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور تمام علمائے حجاز کے نزدیک بچی کو نکاح فسخ کروانے کا حق حاصل نہیں ہوگا،
لیکن اہل عراق کے نزدیک اس کو خیار فسخ حاصل ہو گا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور جمہور کے نزدیک اگر باپ دادا کے سوا کسی ولی نے نابالغہ کا نکاح کر دیا تو وہ باطل ہو گا،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک لڑکی کو خیاربلوغ حاصل ہو گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک فسخ کا اختیار نہیں ہو گا۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے رخصتی کے وقت عورتیں جمع ہو سکتی ہیں اور دلہن کا بناؤ سنگھار کرنا بھی صحیح ہے اور عورتیں جمع ہو کر دلہن کی خوشی اور شاد مانی کا باعث بنیں اور اس کو دعا کے ساتھ رخصت کریں اور دلہن کو دن کے وقت بھی دولہا کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3479