صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
14. باب فَضِيلَةِ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا:
باب: اپنی لونڈی کو آزاد کر کے نکاح کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3500
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَفَّانُ ، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حدثنا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ أَبِي طَلْحَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَقَدَمِي تَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُمْ حِينَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ وَقَدْ أَخْرَجُوا مَوَاشِيَهُمْ، وَخَرَجُوا بِفُؤُوسِهِمْ، وَمَكَاتِلِهِمْ، وَمُرُورِهِمْ، فقَالُوا: مُحَمَّدٌ، وَالْخَمِيسُ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "، قَالَ: وَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَوَقَعَتْ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ، فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تُصَنِّعُهَا لَهُ وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا وَهِيَ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، قَالَ: وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيمَتَهَا التَّمْرَ، وَالْأَقِطَ، وَالسَّمْنَ، فُحِصَتِ الْأَرْضُ أَفَاحِيصَ وَجِيءَ بِالْأَنْطَاعِ، فَوُضِعَتْ فِيهَا وَجِيءَ بِالْأَقِطِ وَالسَّمْنِ، فَشَبِعَ النَّاسُ، قَالَ: وَقَالَ النَّاسُ: لَا نَدْرِي أَتَزَوَّجَهَا أَمِ اتَّخَذَهَا أُمَّ وَلَدٍ؟ قَالُوا: إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ امْرَأَتُهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ أُمُّ وَلَدٍ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَبَ حَجَبَهَا، فَقَعَدَتْ عَلَى عَجُزِ الْبَعِيرِ فَعَرَفُوا أَنَّهُ قَدْ تَزَوَّجَهَا، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَفَعَنْا، قَالَ: فَعَثَرَتِ النَّاقَةُ الْعَضْبَاءُ، وَنَدَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَدَرَتْ فَقَامَ فَسَتَرَهَا وَقَدْ أَشْرَفَتِ النِّسَاءُ، فَقُلْنَ أَبْعَدَ اللَّهُ الْيَهُودِيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، أَوَقَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ لَقَدْ وَقَعَ. (حديث موقوف) قَالَ أَنَسٌ : وَشَهِدْتُ وَلِيمَةَ زَيْنَبَ، فَأَشْبَعَ النَّاسَ خُبْزًا وَلَحْمًا، وَكَانَ يَبْعَثُنِي فَأَدْعُو النَّاسَ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ وَتَبِعْتُهُ، فَتَخَلَّفَ رَجُلَانِ اسْتَأْنَسَ بِهِمَا الْحَدِيثُ لَمْ يَخْرُجَا، فَجَعَلَ يَمُرُّ عَلَى نِسَائِهِ فَيُسَلِّمُ عَلَى كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ: " سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَيْفَ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ؟ "، فَيَقُولُونَ: بِخَيْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ؟: فَيَقُولُ: بِخَيْرٍ، فَلَمَّا فَرَغَ رَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا بَلَغَ الْبَابَ إِذَا هُوَ بِالرَّجُلَيْنِ قَدِ اسْتَأْنَسَ بِهِمَا الْحَدِيثُ، فَلَمَّا رَأَيَاهُ قَدْ رَجَعَ قَامَا فَخَرَجَا فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَا أَخْبَرْتُهُ أَمْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بِأَنَّهُمَا قَدْ خَرَجَا، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي أُسْكُفَّةِ الْبَابِ أَرْخَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ سورة الأحزاب آية 53 الْآيَةَ ".
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر کے موقع پر میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے سوار تھا اور میرا قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم سے لگ رہا تھا۔ تو ہم ان کے پاس سورج کے روشن ہونے (اچھی طرح طلوع ہونے پر) پہنچے اور انہوں نے (گھروں سے) اپنے مویشی نکال لیے تھے، اور اپنے کلہاڑے، ٹوکریاں، بیلچے، کدال، یا رسیاں بھی ساتھ لے جا رہے تھے، تو وہ کہنے لگے، محمد لشکر کے ساتھ آ گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیبر برباد ہو یا خیبر تباہ ہو گیا، ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ عزوجل نے انہیں شکست سے دوچار کیا اور حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں ایک خوبرو لونڈی آئی، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات لونڈیوں کے عوض خرید لیا، پھر اسے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا تاکہ وہ اسے بنا سنوار کر، اسے تیار کرے۔ راوی کا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ام سلیم ہی کے گھر (ان کے پاس) عدت گزارے (یعنی استبرائے رحم ہو، جو لونڈی کے لیے ضروری ہے) اور وہ لونڈی صفیہ بنت حیی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولیمہ میں، کھجور، پنیر اور گھی رکھا۔ زمین کو کرید کر، چمڑے کے دسترخوان لا کر اس میں رکھے گئے، اور پنیر اور گھی لایا گیا جس سے لوگ سیر ہوئے۔ لوگ کہنے لگے ہمیں معلوم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شادی کی ہے یا اسے ام ولد بنایا ہے۔ کہنے لگے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردہ میں رکھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو گی اور اگر اسے پردہ میں نہ رکھا تو وہ ام ولد ہو گی، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے کا ارادہ کیا، اسے پردہ میں کیا اور وہ اونٹ کے پچھلے حصہ پر بیٹھیں تو لوگوں نے جان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شادی کی ہے، تو جب صحابہ کرام مدینہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کو تیز کر دیا اور ہم نے بھی سواریاں دوڑائیں، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) عضباء اونٹنی نے ٹھوکر کھائی، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے اور وہ بھی گر گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے پردہ کیا، اور عورتیں دیکھ رہی تھیں، اس لیے کہنے لگیں اللہ تعالیٰ یہودن کو دور کرے۔ ثابت نے پوچھا اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 23  
´گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے`
«. . . فنادى: ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس . . .»
. . . باآواز بلند اعلان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت کو کھانے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ «رجس» (ناپاک) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 23]

لغوی تشریح:
«يَوْمُ خَيْبَرَ» غزوۂ خیبر کا دن مراد ہے۔ خیبر مدینہ کی شمالی جانب 96 میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ یہاں یہود رہتے تھے۔ یہ غزوہ یہود کے ساتھ محرم 7 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد واقع ہوا۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی جگہ اس شرط پر رہنے کا حق دیا کہ وہ اپنے کھیتوں کے اناج اور باغات کے پھلوں کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو تیماء اور اریحا کی طرف جلا وطن کر دیا۔
«يَنْهَيَانِكُمْ» میں تثنیہ کی ضمیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف راجع ہے، یعنی تمہیں اللہ اور اس کا رسول منع فرماتے ہیں۔
«الْحُمُرِ» حا اور میم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اس کا واحد حمار ہے یعنی گدھا۔
«الْأَهْلِيَّةِ» گھریلو، پالتو (جنگلی نہیں) اہل کی طرف نسبت ہے، یعنی وہ جانور جسے انسان اپنے گھر میں اہل و عیال کی طرح پرورش کرتا اور پالتا ہے۔
«رِجْسٌ» را کے کسرہ اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے۔ ہر وہ چیز جسے انسان گندگی تصور کرتا ہے، خواہ وہ نجس ہو یا نہ ہو، لہٰذا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ گدھے کا جوٹھا نجس اور ناپاک ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے۔ صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے۔
➋ گدھے کا جوٹھا پاک ہے یا نہیں، اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ پاک کہتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ یہ نجس ہے۔ امام حسن بصری، ابن سیرین، اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی پانی نہ ملے تو گدھے کے جوٹھے پانی سے وضو کیا جائے اور تیمم بھی کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات زیادہ قرین صواب ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ «والله اعلم»

راویٔ حدیث: SR سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ER ابوطلحہ کنیت اور نام زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک رہے۔ غزوہ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ہاتھ شل ہو گیا۔ معرکہ حنین میں بیس دشمنان اسلام کو قتل کیا۔ 34 یا بقول بعض 51 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 23   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 563  
´اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے`
«. . . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، خراب ہوا خیبر، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (جہنم اور عذاب سے) ڈرایا گیا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 563]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2945، من حديث مالك به وصرح حميد الطّويل بالسماع عند البخاري 2943]

تفقه:
➊ جن کافروں تک دین اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہو تو انھیں جنگ کے وقت دوبارہ دعوت دینا ضروری نہیں ہے۔
➋ کفار کے خلاف جہادی مہم میں رات کو تیاری کر کے صبح کے وقت حملہ کرنا بہتر ہے۔
➌ اپنی بات کی تائید کے لئے شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے عند الضرورت قرآنی آیات سے استشہاد و استدلال جائز ہے۔
➍ اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے لیکن یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں مروجہ نعرہ تکبیر کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے بلکہ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2992، وصحيح مسلم 2704]
➎ وہ کافر جو دن رات مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں ہیں، ان کے خلاف حملہ کی ابتداء کر کے اقدامی جہاد کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 149   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 548  
´سفر میں غلس میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا: «اللہ أكبر» اللہ سب سے بڑا ہے خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 548]
548 ۔ اردو حاشیہ:
➊۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ صبح کے بعد کیا کیونکہ آپ صبح کی اذان کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے تاکہ وہاں مسلمان حملے میں نہ مارے جائیں اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے کہ سب کافر ہیں۔
خیبر ویران ہوا۔ یہ پیش گوئی ہو سکتی ہے جو واقعتاً پوری ہوئی۔ دعا بھی ہو سکتی ہے، پھر معنی ہوں گے خیبر ویران ہو جائے۔ یہ جملہ بطور فال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو وہ آگے سے ٹوکرے اور کدالیں لے کر آرہے تھے۔
➌جن کفار کو پہلے اسلام کی دعوت دی جاچکی ہو، ان پرچڑھائی کرنا جائز ہے۔
➍دشمن کا سامنا کرتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 548   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1550  
´رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اور حملہ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں،
چنانچہ اگراذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1550   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3009  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3009]
فوائد ومسائل:
امام ابو دائود یہ حدیث بیا ن کرکے واضح کرنا چاہتے ہیں۔
کہ خیبر کا کچھ حصہ قتال سے اور کچھ حصہ صلح سے حاصل ہوا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3009   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3500  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَصْنَعُهَا:
اسے بنائے سنوارے۔
(2)
فُؤُوْسٌ:
فاس کی جمع ہے۔
کلہاڑا،
یتشہ۔
(3)
مَكاَتِلْ:
مکتل کی جمع ہے،
ٹوکری۔
(4)
مُرُوْرِ:
مرکی جمع ہے،
بیلچہ اور بقول قاضی عیاض رسیاں جن کے ذریعہ کھجور کے درخت پر چڑھا جاتا ہے۔
(5)
تَعْتَدُّفِيْ بَيْتِهَا:
ام سلیم کے پاس مدت حیض گزارے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔
(6)
أَفَاحِيْص:
اُفْحُوْص کی جمع ہے،
مقصد یہ ہے کہ دسترخوان بچھانے کے لیے زمین کو تھوڑا سا کھودا گیا۔
(7)
نَدَرَ:
ندور سے ماخوذ ہے جس کا معنی الگ ہونا اور نکلنا ہے اور یہاں مراد گرنا ہے۔
فوائد ومسائل:

نکاح کے وقت سب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حاضر نہ تھے اور نہ ہی سب دعوت ولیمہ میں شریک تھے۔
اس لیے سب کو اس نکاح کا پتہ نہ چل سکا۔
اس لیے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نکاح گواہوں کے بغیر ہو سکتا ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اہل البیت کا اولین اور اصلی مصداق ہے اور اس کے لیے جمع مذکر صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(سلام عليكم كيف انتم يا اهل البيت؟يقولون:
)

(ہر بیوی نے پوچھا)
اور پردہ کا حکم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمہ کے وقت نازل ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3500