صحيح مسلم
كِتَاب النِّكَاحِ -- نکاح کے احکام و مسائل
16. باب الأَمْرِ بِإِجَابَةِ الدَّاعِي إِلَى دَعْوَةٍ:
باب: دعوت قبول کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3525
وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْأَعْرَجَ ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " شَرُّ الطَّعَامِ: طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُمْنَعُهَا مَنْ يَأْتِيهَا، وَيُدْعَى إِلَيْهَا مَنْ يَأْبَاهَا، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".
زیاد بن سعد نے کہا: میں نے ثابت (بن عیاض) اعرج سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدترین کھانا (ایسے) ولیمے کا کھانا ہے کہ جو اس میں آتا ہے اسے اس سے روکا جاتا ہے اور جو اس (میں شمولیت) سے انکار کرتا ہے اسے بلایا جاتا ہے۔ اور جس شخص نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدترین کھانا ولیمہ کا کھانا ہے۔ حاضر ہونے والوں کو محرو م رکھا جاتا ہے، اور انہیں دعوت دی جاتی ہے، جو آنے سے انکار کرتے ہیں، اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا، تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3742  
´دعوت قبول کرنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں صرف مالدار بلائے جائیں اور غریب و مسکین چھوڑ دیئے جائیں، اور جو (ولیمہ کی) دعوت میں نہیں آیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3742]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شرعی دعوتوں کا اہتمام کرنا انھیں قبول کرنا اور ان میں حاضر ہونا انتہائی تاکیدی عمل ہے۔
بغیر اس استثناء کے کہ دعوت دینے والا کون ہے؟ لہذا شرعی عذر کے بغیر ان سے پیچھے رہنا قطعا روا نہیں۔
جو ایک اعتبار سے تکبر میں شمار ہوتا ہے۔
ایسے ہی اغنیاء کی دعوت قبول کرنا اور فقراء سے اعراض کرنا بھی بہت بڑا عیب ہے۔
نیز اہم شرط یہ ہے کہ ان دعوتوں میں شرعی امور وآداب کی پابندی اخوت وحب اسلامی کا اظہار اور اکرام مسلم مقصود ہو ریا شہرہ صرف اغنیاء اور امراء کوجمع کرنا فقراء کو اہمیت نہ دینا۔
اسراف وتبذیر اور دیگر شرعی مخالفتوں کا ارتکاب ان دعوتوں کو مکروہ بنا دیتا ہے۔
جن میں شرکت جائز نہیں۔
علاوہ ازیں اس طرح کی دعوت میں شریک ہونے والا بھی محض لذت کام ودہن کو اپنا م مطمع نظر نہ بنائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3742   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3525  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام طور پر فقراء اور مساکین یا محتاج و ضرورت مند دعوت کو بلا حیل وحجت شوق ورغبت سے قبول کرلیتے ہیں،
لیکن ان کو نظر انداز کردیا جاتا ہے،
اور اصحاب مال وثروت دعوت قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اس میں شرکت کے لیے ناز و نخرے کرتے ہیں بلکہ حاضری کو اپنا احسان سمجھتے ہیں،
لیکن ان کو باصرار دعوت دی جاتی ہے۔
جبکہ اسلامی اخوت و بھائی چارے اور اخلاق کا تقاضا یہ ہےکہ اگردعوت میں کسی معصیت یا بدعت وخرافات کا دخل نہ ہو تو اس کو ہر صورت قبول کرنا چاہیے اگر دعوت میں دکھاوا،
نام آوری اور خود ستائی و شہرت مقصود ہو یا کسی مطلب برآری کے لیے بلایا ہویا کوئی شرعی قباحت ہوتو نہیں جانا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3525