صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ -- طلاق کے احکام و مسائل
1. باب تَحْرِيمِ طَلاَقِ الْحَائِضِ بِغَيْرِ رِضَاهَا وَأَنَّهُ لَوْ خَالَفَ وَقَعَ الطَّلاَقُ وَيُؤْمَرُ بِرَجْعَتِهَا:
باب: حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3653
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْح ، واللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ قُتَيْبَةُ: حدثنا لَيْثٌ ، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً، " فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ عَنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضَتِهَا، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ "، وَزَادَ ابْنُ رُمْحٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ، عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: لِأَحَدِهِمْ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي بِهَذَا، وَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ، وَعَصَيْتَ اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكَ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ، قَالَ مُسْلِم: جَوَّدَ اللَّيْثُ، فِي قَوْلِهِ: تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً.
یحییٰ بن یحییٰ، قتیبہ بن سعید اور ابن رمح نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں۔۔ قتیبہ نے کہا: ہمیں لیث نے حدیث سنائی اور دوسرے دونوں نے کہا: ہمیں لیث بن سعد نے نافع سے خبر دی، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جب وہ حیض کی حالت میں تھی ایک طلاق دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کریں، پھر اسے (اپنے پاس) روکیں حتی کہ وہ پاک ہو جائے، پھر ان کے ہاں اسے دوبارہ حیض آئے، پھر اسے مہلت دیں حتی کہ وہ (پھر سے) اپنے حیض سے پاک ہو جائے۔ اس کے بعد اگر اسے طلاق دینا چاہیں تو طہر کے زمانے میں، اس کے ساتھ مجامعت کرنے سے پہلے اسے طلاق دیں، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس کے مطابق عورتوں کو طلاق دی جائے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جب اس (مسئلہ) کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ ان میں سے کسی سے کہتے: اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو مرتبہ طلاق دی ہے (تو رجوع کرو) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔ اور اگر تم اسے تین طلاقیں دے چکے ہو تو وہ تم پر حرام ہو گئی ہے یہاں تک کہ وہ تمہارے سواکسی اور شوہر سے نکاح کرے۔ تم نے اس حکم میں، جو اس نے تمہاری بیوی کی طلاق کے بارے میں تمہیں دیا ہے، اللہ کی نافرمانی کی ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: لیث نے اپنے (روایت کردہ) قول "ایک طلاق" (کو محفوظ رکھنے اور بیان کرنے کے معاملے) میں بہت اچھا کام کیا ہے
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے طہر تک روکے رکھے۔ پھر اسے اس کے ہاں دوسرا حیض شروع ہو جائے تو اس کے قریب جانے سے پہلے اسے طلاق دے، یہ وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ ابن رمح کی روایت میں یہ اضافہ ہے۔ جب عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو وہ سوال کرنے والے کو کہتے اگر تو نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا (رجوع کا) حکم دیا تھا۔ اور اگر تو نے تیسری طلاق دی ہے تو وہ تم پر اس وقت تک حرام ہو چکی ہے، جب تک وہ تیرے سوا کسی اور خاوند سے قربت نہ کر لے، اور بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے اس کی تو نے نافرمانی کی ہے۔ امام مسلم فرماتے ہیں: امام لیث نے (تَطْلِيْقَةً وَاحِدَةً)
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 367  
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
«. . . 233- وبه: عن ابن عمر: أنه طلق امرأته وهى حائض فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مره فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التى أمر الله أن تطلق لها النساء. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو اس کی حالت حیض میں (ایک) طلاق دی، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (ابن عمر کو) حکم دو کہ وہ رجوع کر لے، پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے پھر وہ اس سے پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اسے اپنے نکاح میں رکھے اور اگر چاہے تو اسے چھونے سے پہلے طلاق دے دے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 367]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5251، و مسلم 1471، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی حائضہ بیوی کو ایک طلاق دی تھی۔ [صحيح بخاري: 5332، صحيح مسلم: 1471، دارالسلام: 3653]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ طلاق (جو میں نے حائضہ بیوی کو دی تھی) ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔ [صحيح بخاري: 5253، صحيح مسلم: 1471، دارالسلام: 3658]
معلوم ہوا کہ حالت حیض والی بیوی کو طلاق دینا ممنوع ہے لیکن اگر دے دی جائے تو یہ طلاق شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو (ایک) طلاق دے پھر وہ تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو وہ اپنے خاوند سے بری ہوجاتی ہے اور خاوند اس سے بری ہو جاتا ہے۔ [الموطأ 2/578 ح1258، وسنده صحيح]
➌ عالم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو غلطی یا لغزش سے مبرا نہیں ہو سکتا۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ابغض الحلال الي الله عزوجل الطلاق .»
اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔ [سنن ابي داؤد: 2178 وسنده حسن لذاته وأخطأ من ضعفه]
➎ اگر کسی مسلے کا علم نہ ہو تو انسان گناہ گار نہیں ہوتا لیکن علم ہو جانے کے بعد سابقہ کوتاہی پر توبہ ضروری ہے۔
➏ قرآن مجید کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث (اور آثارِ سلف صالحین) سے معلوم ہوتا ہے۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   
  الشيخ غلام مصطفےٰ ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري5252  
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
انس بن سیرین نے، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ چاہیے کہ رجوع کر لیں۔ (انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق، طلاق سمجھی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ۔ پھر کیا سمجھی جائے گی؟... [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/ ح: 5252]
فوائد و مسائل
حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ:
❀ نافع رحمہ الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مره فليرا جعها، ثم ليطلقها أو حاملا .»
انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کر لیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔ [صحيح بخاري: 5251، صحيح مسلم: 1471، واللفظ له]
«فليرا جعها» کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟
● امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:
اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہو گی۔
↰ ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ:
❀ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ [سنن الدارقطني: 5/4، سنن الكبري للبيهقي: 326/7، وسنده حسن]
❀ نیز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔ [مسند الطيالسي: 68، مسند عمر بن خطاب لابن النجاد: 1، وسنده صحيح]
↰ صاحب واقعہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود فرماتے ہیں:
یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔ [صحيح بخاري: 5253]
↰ راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہو گئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔ [سنن الدارقطني: 6/3، مسند عمر بن الخطاب، تحت حديث: 3وسنده حسن]
● امام عطابن ابی رباح [مصنف ابن ابي شيبة: 5/5، وسنده صحيح]،
● امام زہری [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام ابن سیرین [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام جابر زید [ايضا، وسنده صحيح]
● اور تمام محدیثن وائمہ دین رحمہ الله حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔
اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ بھی کیا لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔

❀ سنن ابی داؤد [2185] میں یہ الفاظ ہیں کہ:
«فردها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يرها شيا . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کولوٹا دیا اور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیا ہے، لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔

❀ سنن النسائی [3427] وسندہ صحیح کے الفاظ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کر دیا (رجوع کا حکم دیا) حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔
↰ مطلب یہ ہے کہ پہلی طلاق کے واقع ہو جانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہو جائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2019  
´سنت کے مطابق طلاق دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہو جائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2019]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالی نے نکاح کا تعلق دائمی بنایا ہے، یعنی نکاح اس لیے کیا جاتا ہے کہ پوری زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔
اس تعلق کا پائیدار بنانے کے لیے اللہ تعالی نے بہت سے احکام و آداب نازل کیے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

 (ا)
    نکاح کرتے وقت نیک دین دار بیوی تلاش کرنے کا حکم دیا گیا۔ (دیکھئے حدیث: 1858)

 (ب)
نکاح کا تعلق انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بنادیا گیا ہے، یعنی ایک مرد کا ایک عورت سے تعلق نہیں بلکہ ایک خاندان کا دوسرے خاندان سے تعلق قائم کیا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے عورت کے سرپرستوں کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور دعوت ولیمہ جیسے احکام جاری کیے ہیں۔

(ج)
عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مرد کو عورت کی غلطیاں اور کوتاہیاں برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (دیکھئے حدیث: 1851، 1853، 1855وغیرہ)

(د)
عورت کی اصلاح کے لیے فوراً سختی کرنے کی بجائے اصلاح کا تدریجی طریق کار تجویز کیا گیا ہے، یعنی زبانی وعظ و نصیحت، اظہار ناراضی اور بستر میں علیحدگی اور آخر میں معمولی جسمانی سزا۔ (النساء، 4: 34)

(و)
اگر معاملات میں بگاڑ اس حد تک پہنچ جائے کہ دوسروں کی مداخلت ضروری ہوجائے تو ثالثی، یعنی پنچایت کے طریق پر مرد اور عورت دونوں کی شکایتیں سن کرجس کی غلطی ہو، اسے سمجھایا جائے اور صلح کرا دی جائے۔ (النساء، 4: 35)

(ر)
طلاق دینا ضروری ہوجائے تو ایک ہی بار تعلق ختم کردینے کے بجائے ایک رجعی طلاق دینے کاحکم دیا گیا ہے۔
جس کے بعد دوبارہ تعلق بحال کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

(ز)
ایام حیض میں اور جس طہر میں مقاربت کی گئی ہو، اس طہر میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔
اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر وقتی غصہ ہو تو ختم ہوجائے اور اگر جدائی کا فیصلہ ہو تو غور و فکر کرنے کی مہلت مل جائے اور اس طرح تعلقات بحال رکھنے کے امکانات بڑھ جائیں۔

(ح)
دوسری طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔

(ط)
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رکھا گیا تاکہ مرداچھی طرح سوچ سمجھ کر یہ طلاق دے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے بعد تعلقات بحال کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

(2)
  اگر ایام حیض میں یا اس طہر میں جس میں مقاربت کی گئی ہو، طلاق دی جائے تو یہ طلاق کا غلط طریقہ ہے جسے علماء کی اصطلاح میں بدعی طلاق یاطلاق بدعت کہتے ہیں۔
ایسی طلاق کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ واقع ہوجائے گی یا نہیں، بہت سے علماء اس کے واقع ہوجانے کے قائل ہیں لیکن اس طرح طلاق دینے والے کو گناہ گار قراردیتے ہیں۔
دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ سنت کے مطابق نہیں دی گئی۔
امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ، ازنواب وحیدالزمان خان)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2019   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1175  
´مسنون طلاق کا بیان۔`
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کر لیں، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہو گی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی)، بھلا بتاؤ اگر وہ عاجز ہو جاتا یا دیوانہ ہو جاتا تو واقع ہوتی یا نہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1175]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جب رجعت سے عاجزہوجانے یا دیوانہ وپاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمارکی جائے گی تورجعت کے بعد بھی ضرورشمارکی جائے گی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ اگروہ واقع نہ ہو تو آپ کا مُرهُ فَليُرَاجِعهَا کہنا بے معنی ہوگا،
جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا،
لیکن ظاہریہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی،
ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی،
ابوداؤد کی ایک روایت (رقم: 2185) کے الفاظ ہیں لَم يَرَهَا شَيئاً،
محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہریہ کے مسلک کو اختیارکیا جائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1175   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2184  
´سنت کے مطابق طلاق کا بیان۔`
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے۔‏‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2184]
فوائد ومسائل:
حیض کے ایام میں طلاق خلاف سنت ہے مگر شمار کی جائے گی۔
لغو اور باطل نہیں ہے(تفصیل کیلئے دیکھئے: ارواءالغلیل حدیث:2059)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2184   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3653  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام لیث کے سوا عام راویوں نے طلاق کی مقدار کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کتنی طلاقیں دی تھیں کو نظر انداز کردیا ہے اور بعض نے غلطی سے اس کو تین قرار دیا ہے۔
لیکن امام لیث نے نظر انداز بھی نہیں کیا اور غلطی بھی نہیں کی بلکہ صحیح طور پر مقدار کو یاد رکھا اور اس کا تذکرہ کیا،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بعد والے طہر میں طلاق دینے کی اجازت نہیں دی تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ رجوع طلاق دینے کے لیے کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عرصہ تک پاس رہنے کی وجہ سے شاید باہمی پیارومحبت پیدا ہو جائے اور حالات سازگار ہونے سے طلاق کی نوبت نہ آئے۔
اور یہ بھی ممکن ہے یہ حیض میں طلاق دینے کے جرم وگناہ کی سزا کے طور پر ہو اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حیض سے متصل طہر میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں یہ بہتر ہے لازم نہیں ہے۔
اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور جمہور کے نزدیک اس طہر میں طلاق دینا جس میں قربت کی ہے جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3653