صحيح البخاري
كِتَاب الْكُسُوف -- کتاب: سورج گہن کے متعلق بیان
16. بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ فِي خُطْبَةِ الْكُسُوفِ أَمَّا بَعْدُ:
باب: گرہن کے خطبہ میں امام کا «أما بعد» کہنا۔
حدیث نمبر: 1061
وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ
اور ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب سورج صاف ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق اس کی تعریف کی اس کے بعد فرمایا «أما بعد» ۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 401  
´نماز کسوف کا بیان`
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جس دن ابراہیم کی وفات ہوئی اس دن سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے، جس پر رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شمس و قمر اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ چنانچہ جب تم ان دونوں (چاند اور سورج) کو اس حالت میں دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور نماز پڑھو یہاں تک کہ سورج گرہن کھل جائے۔ (بخاری ومسلم)
اور بخاری کی ایک روایت میں ہے نماز پڑھتے رہو یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے۔ اور بخاری میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نماز پڑھو، دعا مانگو یہاں تک کہ وہ کیفیت تمہارے سامنے سے دور ہو جائے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 401»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الكسوف، باب الصلاةفي كسوف الشمس، حديث:1043، وحديث أبي بكرة أخرجه البخاري، الكسوف، حديث:1040.»
تشریح:
1. آفتاب و ماہتاب کا گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو عظیم نشانیاں ہیں۔
اتنی بڑی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پر مارنے اور جنبش کرنے کی مجال نہیں‘ نہ وہ اپنی آزاد مرضی سے طلوع ہو سکتے ہیں اور نہ غروب۔
وہ ضابطۂالٰہی میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس ضابطے سے انحراف ان کے بس میں نہیں۔
جب ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو پھر یہ نفع و ضرر کے مالک کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ دور جاہلیت کے نظریہ و خیال کی تردید ہے۔
2. اس موقع پر نماز و دعا مسنون ہے۔
نماز کی دو رکعتیں جماعت کے ساتھ آپ سے ثابت ہیں۔
ہر رکعت میں دو ‘ تین یا چار رکوع کیے جا سکتے ہیں‘ تاہم صحیح ترین احادیث میں ہر رکعت میں دو دو رکوع کا ذکر ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (التمھید:۳ / ۳۰۲. ۳۰۸‘ والتوسل والوسیلہ:۸۶‘ وزاد المعاد: ۱ / ۴۵۳‘ ۴۵۵) «فَإِذَا رَأَیْتُمُوھُمَا» پس جب تم انھیں دیکھو کے حکم سے معلوم ہوا کہ یہ نماز اوقات مکروہہ میں بھی پڑھنا جائز ہے۔
3. یہ نماز سنت ہے یا واجب؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ سنت ہے اور دوسری رائے ہے کہ یہ واجب ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔
4. جمہور علماء کے نزدیک جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس کی دو ہی رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں دو قیام‘ دو مرتبہ قراء ت اور دو رکوع ہیں۔
رکعت کے پہلے قیام میں سورۂ فاتحہ کے پڑھنے پر اتفاق ہے مگر دوسرے قیام میں اختلاف ہے کہ اس میں بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی یا نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ دوسرے قیام میں بھی فاتحہ پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں ورنہ ان کے نزدیک نماز صحیح نہیں ہوگی۔
درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رکوع کے بعد قومہ کرنے کی بجائے دوبارہ قراء ت شروع کر دینا ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے‘ لہٰذا اس موقع پر نئے سرے سے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔
واللّٰہ أعلم۔
5. رہا یہ مسئلہ کہ قراء ت بلند آواز سے کی جائے گی یا آہستہ آواز سے‘ تو اس کی بابت درست اور راجح بات یہی ہے کہ قراء ت بلند آواز سے کی جائے۔
نماز کے بعد قبلہ رو ہو کر خوب گڑ گڑا کر دعا کی جائے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد قبلہ رو ہو کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن صاف ہو گیا۔
(تاریخ دمشق: ۷ / ۱۲۹) نیز احادیث میں اس موقع پر صدقہ کرنے‘ عذاب قبر سے پناہ مانگنے اور غلام آزاد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
وضاحت: «ابراہیم» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ہیں۔
ان کی والدہ کا نام ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ہے۔
اسکندریہ اور مصر کے حکمران مقوقس نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔
آپ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ جمادی الاولیٰ ۹ ہجری کو پیدا ہوئے اور اٹھارہ ماہ کے بعد ۲۹ شوال ۱۰ ہجری کو وفات پائی۔
بقیع میں دفن ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک دودھ پلانے والی نے اس کی مدت رضاعت کو پورا کیا ہے۔
(صحیح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما قیل في أولاد المسلمین‘ حدیث:۱۳۸۲)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 401   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1061  
1061. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب نماز کسوف سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا، آپ نے خطبہ دیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی شایانِ شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "أما بعد۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:1061]
حدیث حاشیہ:
خطبۂ جمعہ میں بھی أما بعد کہنے کے متعلق امام بخاری ؒ نے ایک عنوان قائم کیا تھا جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کسوف کے بعد خطبہ دینا مستحب ہے۔
(فتح الباري: 706/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1061