صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ -- طلاق کے احکام و مسائل
4. باب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهِ لاَ يَكُونُ طَلاَقًا إِلاَّ بِالنِّيَّةِ:
باب: تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو۔
حدیث نمبر: 3681
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: أَخْبَرَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا {28} وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا {29} سورة الأحزاب آية 28-29، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ".
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ نے (اس کی) ابتدا مجھ سے کی، اور فرمایا: " میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرنے تک (جواب دینے میں) عجلت سے کام نہ لو۔" انہوں نے کہا: آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) ساز و سامان دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے عرض کی: ان میں سے کس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہوں۔ کہا: پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ الفاظ حرملہ بن یحییٰ تجیبی کے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیویوں کو (دنیا اور آخرت میں سے ایک کے انتخاب کا) اختیار دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا مجھ سے کی اور فرمایا: میں تم سے ایک معاملہ کا ذکر کرنے لگا ہوں۔ تم پر کوئی تنگی نہیں ہے اگر (اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں) جلد بازی سے کام نہ لو۔ حتی کہ اپنے والدین سے صلاح و مشورہ کر لو۔ وہ بیان کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجیئے، اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی خواہاں ہو، تو آؤ۔ میں تمہیں دنیا کا سازوسامان دوں اور بڑے اچھے طریقہ سے تمہیں رخصت کروں، اور اگر تم اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی خواہاں ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم خوب کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ (سورۃ احزاب: 28،29)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2053  
´مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) اے نبی! اپنی بیویو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ان تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا۔

(2)
  اس میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی رسو ل اللہﷺ سے محبت کا بیان ہے۔

(3)
  امہات المومنین کے عظیم ایمان اور آخرت کےاجر و ثواب کی طلب کا ذکر ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کے ثواب کے حصول کا فیصلہ فرمالیا۔

(4)
رسول اللہﷺ کی یہ خواہش کہ والدین سے مشورہ کرکے جواب دیں، اس لیے تھی کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری کی وجہ سے کوئی غلط جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔

(5)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کے ایمان کی پختگی اور ایمانی فراست پر نبیﷺ کا اعتماد۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3681  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اسباب و وجوہ کی بنا پر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے ناراض ہوئے جو پے در پے یکے بعد دیگرے پیش آئے پہلے شہد والا واقعہ پیش آیا،
اس کے بعد ماریہ قبطیہ کا واقعہ رونما ہو۔
پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نان و نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر متفق ہو گئیں اس طرح کچھ امور پیش آئے جو آ گے آ رہے ہیں جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ ایلا کرتے ہوئے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے علیحدگی اختیار کرلی،
اور ایلا کے خاتمہ پر آیت تخییر نازل ہوئی۔
جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو اپنے پاس رہنے اور جدا ہونے کا اختیار دیا۔
اور آغاز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
کیونکہ وہی سب سے زیادہ محبوبہ تھیں اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے،
اس لیے ان کی خیر خواہی کے پیش نظران کی نوخیزی تجربہ کاری سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا کہ فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام نہ لینا۔
پہلے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار تھے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی گوارا نہیں کر سکتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی کمال ذہانت و فطانت اور اصابت فکر کی بنا پر مشورہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی یہ واقعہ 9 ہجری میں پیش آیا جس سے معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت تک ان کی والدہ اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بقید حیات تھیں اور باقی ازواج نے بھی اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کا انتخاب کیا۔
اور اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں طلاق تفویض کی تھی کہ وہ طلاق لینے کا حق رکھتی ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا جب وہ دنیا کو اختیار کر لیں گی۔
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ،
تفویض کے قائل ہیں اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ وعدہ کے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3681