صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ -- طلاق کے احکام و مسائل
9. باب وُجُوبِ الإِحْدَادِ فِي عِدَّةِ الْوَفَاةِ وَتَحْرِيمِهِ فِي غَيْرِ ذَلِكَ إِلاَّ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ:
باب: سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 3728
قَالَ حُمَيْدٌ: قُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ؟ فقَالَت زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا، حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ، فَتُعْطَى بَعْرَةً، فَتَرْمِي بِهَا، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ.
حمید نے کہا: میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینکنا کیا ہے؟ زینب نے جواب دیا: (جاہلیت میں) جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا تھا تو وہ ایک (دڑبہ نما) انتہائی تنگ جھونپڑی میں چلی جاتی، اپنے بدترین کپڑے پہن لیتی اور کوئی خوشبو وغیرہ استعمال نہ کرتی حتی کہ (اسی حالت میں) سال گزر جاتا، پھر اس کے پاس کوئی جانور گدھا، بکری یا کوئی پرندہ لایا جاتا، تو وہ اسے اپنی شرمگاہ سے ملتی، کم ہی ہوتا کہ وہ کسی کو ملتی تو وہ زندہ رہتا (سخت تعفن اور جراثیم وغیرہ کی بنا پر بیمار ہو کر مر جاتا) پھر وہ باہر نکلتی تو اسے ایک مینگنی دی جاتی جسے وہ (اپنے آگے یا پیچھے) پھینکتی، پھر اس کے بعد خوشبو وغیرہ جو وہ چاہتی استعمال کرتی
حمید کہتے ہیں میں نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا، سال گزرنے پر مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے؟ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا، جب عورت کا شوہر فوت ہو جاتا، تو وہ ایک کٹیا میں داخل ہو جاتی اور اپنے بدترین کپڑے پہن لیتی اور خوشبو یا اس قسم کی کوئی چیز استعمال نہ کرتی، حتی کہ اس پر سال گزر جاتا، پھر اس کے پاس کوئی جاندار، گدھا یا بکری یا پرندہ لایا جاتا، اور وہ اسے اپنی شرمگاہ سے ملتی، اور جس جانور کو بھی ملتی وہ کم ہی زندہ رہتا، پھر وہ کٹیا سے نکلتی، تو اسے ایک مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی (کہ اتنا حق بھی ادا نہیں ہوا) اس کے بعد جو خوشبو وغیرہ استعمال کرنا چاہتی، کر لیتی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3728  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تَفتَضُّ:
عدت کو ختم کرتی،
جس کی صورت یہ ہوتی کہ ایک سال صفائی اور ستھرائی نہ کرنے کی بنا پر اس کی شکل وصورت،
خوفناک ہوجاتی اور پانی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جسم میں زہرناکی پیدا ہو جاتی،
اسے کوئی جاندار پیش کیا جاتا،
جسےوہ اپنے مخصوص حصہ کے ساتھ ملتی،
تو وہ جانور مر جاتا اور یہ اس کے عدت کے خاتمہ کا اعلان ہوتا۔
اور وہ اس کے بعد فورا گھر جا کر نہاتی دھوتی،
اور ایک مینگنی پھینک کر اس طرف اشارہ کرتی کہ خاوند کے سوگ کا کچھ حق بھی ادا نہیں ہو سکا۔
فوائد ومسائل:

حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جو بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد فوت ہوا وہ ابو احمد تھا کیونکہ عبداللہ جنگ احد میں شہید ہو گیا تھا،
اورعبیداللہ بن حجش جو حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خاوند تھا،
وہ مرتد ہوگیا تھا اور حبشہ میں مرگیا تھا۔

سوگ کا معنی ہے کہ عورت اپنی عدت میں زیب و زینت اور ہار سنگھار استعمال نہیں کر سکتی اپنی پوری مدت میں اس طرح رہے گی کہ ایسی شکل و صورت اور لباس و ہئیت سے اس کی بیوگی اور غمزدگی کاا ظہار ہوگا،
شوخ و شنگ اور خوبصورت رنگین کپڑے جو زیب و زینت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی طرح زیورات ہار سنگھار،
اور بناؤ وسنوار میک اپ (غازہ پاؤڈر وغیرہ)
کا استعمال جائز نہیں ہے اور بغیر انتہائی شدید ضرورت کے سرمہ استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
شدید ضرورت کی صورت میں رات کو سرمہ استعمال کیا جائے گا،
اور دن کو اسے صاف کردیا جائے گا۔
جمہور کا یہی موقف ہے لیکن اہل ظاہر کے نزدیک سرمہ لگانا بھی جائز نہیں ہے،
کیونکہ یہ زینت کی چیز ہے۔
اگر دوا ایسی ہو جو زینت کا باعث نہیں ہے تو پھر درست ہے۔

ہر بیوہ عورت پر سوگ کرنا واجب ہے چاہے وہ مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ چھوٹی ہو یا بڑی مسلمہ ہو یا اہل کتاب سے آزاد ہو یا لونڈی (جبکہ نکاح میں ہو)
جمہور کا یہی نظریہ ہے لیکن احناف اور بعض مالکیہ کے نزدیک سوگ مسلمان بالغہ پر ہے بچی ذمی عورت پر نہیں ہے مطلقہ ثلاثہ کے سوگ میں اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
نزدیک اس پر سوگ نہیں ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس پر بھی سوگ ہے اور شوہر کے علاوہ کسی دوسرے عزیز مثلاً باپ،
بھائی یا بیٹا۔
اس کے انتقال پر اگر کوئی عورت اپنا دلی صدمہ سوگ کی صورت میں ظاہر کرے،
تو اس کی صرف تین دن تک کے لیے اجازت ہے اس سے زیادہ سوگ منانا جائز ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3728