صحيح البخاري
كِتَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ -- کتاب: سجود قرآن کے مسائل
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ وَسُنَّتِهَا:
باب: سجدہ تلاوت اور اس کے سنت ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1067
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ بِمَكَّةَ فَسَجَدَ فِيهَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ غَيْرَ شَيْخٍ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ، فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا، فَرَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق نے انہوں نے کہا کہ میں نے اسود سے سنا انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنے آدمی تھے (مسلمان اور کافر) ان سب نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا البتہ ایک بوڑھا شخص (امیہ بن خلف) اپنے ہاتھ میں کنکری یا مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی تک لے گیا اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے میں نے دیکھا کہ بعد میں وہ بوڑھا حالت کفر میں ہی مارا گیا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3853  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ , فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: هَذَا يَكْفِينِي فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3853]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3853 کا باب: «بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر جو مشرکین کی طرف سے مشکلات ہوئیں اشارہ کیا جا رہا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بظاہر کسی بھی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«كان حق هذا الحديث أن يذكر فى باب الهجرة الي الحبشة المذكور هو قليل فسيأتى فيها أن سجود المشركين المذكور فيه سبب رجوع من هاجر الهجرة الأولي إلى الحبشة لظنهم أن المشركين كلهم أسلموا .» [فتح الباري لابن حجر: 143/7]
اس حدیث کا حق یہ تھا کہ اسے ہجرت کے باب میں ذکر کیا جائے، پس تحقیق اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس میں کہ مشرکین کا اس میں سجدہ کرنا تھا (مسلمان) یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہو گئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی طرف نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کی طرف نکل گئے، پس یہاں پر مسلمانوں کو تکلیف جو ہوئی یہیں سے ترجمتہ الباب کی مناسبت بنتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمہ الباب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث ان امتناع الرجال المذكور فيه عن السجدة مع المسلمين ومخالفة اياهم نوع أذي لهم فلا يخفي ذالك» [عمدة القاري للعيني: 458/16]
باب سے مطابقت حدیث کے یوں ہے کہ اس شخص نے (امیہ بن خلف) نے سجدہ سے انکار کر دیا، پس یہ انکار کر دینا مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھا اور یہ کسی سے بھی مخفی نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1406  
´سورۃ النجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا: میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1406]
1406. اردو حاشیہ:
➊ سورہ نجم میں سجدہ تلاوت ہے۔
➋ پڑھنے اور سننے والے سب ہی سجدہ کریں۔
➌ تکبر سے خیر کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ اُمیہ بن خلف تھا۔ جو کفار مکہ کے سرداروں میں سے تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1406   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1067  
1067. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1067]
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔
اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی ؑ کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔
یہ بھی حضرت موسی ؑ کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔
اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔
اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون ؑ یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔
دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔
جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أما المصنف في روایة إسرائیل أن النجم أول سورة أنزلت فیھا سجدة وھذا ھوالسر في بداءة المصنف في ھذہ الأبواب بھذا الحدیث۔
یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے، یوں تو سجدہ سورۃ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا، آنحضرت ﷺ نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے:
إن المراد أول سورة فیھا سجدة تلاوتھا جھرا علی المشرکین۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1067   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1067  
1067. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا۔ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان سب نے سجدہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ شخص کے علاوہ (کہ وہ سجدہ ریز نہ ہوا)، اس نے مٹھی بھر کنکریاں یا مٹی لے کر اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہنے لگا: مجھے یہی کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1067]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت کا نزول ہوا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ سجدہ ہائے تلاوت کے سلسلے میں اس حدیث کو پہلے لائے ہیں۔
لیکن اعتراض ہو سکتا ہے کہ سورۂ علق اس سے قبل نازل ہوئی تھی جس میں سجدۂ تلاوت ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں سجدۂ تلاوت نہیں ہے اور سجدے پر مشتمل آیات کا نزول سورۂ نجم کے بعد ہوا ہے، یعنی سورۂ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدۂ تلاوت بھی ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے علانیہ طور پر مشرکین مکہ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے۔
(فتح الباري: 712/2) (2)
اس میں اس کے طریقے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سجدہ زمین پر ہونا چاہیے، مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر پیشانی پر رکھ لینا مشرکین کا طریقہ ہے۔
مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
(3)
ایک روایت میں اس عمر رسیدہ شخص کی صراحت ہے جس نے سجدۂ تلاوت نہیں کیا تھا۔
وہ امیہ بن خلف تھا جس نے مٹی ہاتھ میں لے کر اس پر اپنا ماتھا ٹیک دیا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین نے بھی سجدہ کیا تھا۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی تو تمام لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا۔
اس وقت اتنے لوگ آپ کے ساتھ تھے کہ بھیڑ کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی، لیکن جب قریش کے سردار ولید بن مغیرہ اور ابوجہل وغیرہ طائف سے مکہ آئے تو ان کے گمراہ کرنے سے مشرکین اپنے آبائی دین کی طرف واپس لوٹ گئے۔
یہ لوگ اپنے سرداروں کو خوش کرنے کے لیے مرتد ہوئے تھے۔
دین اسلام سے بیزار ہو کر کوئی آدمی مرتد نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے حدیث ہرقل میں اس کا اعتراف کیا تھا۔
(صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 7)
حافظ ابن حجر ؒ نے مشرکین کے سجدہ کرنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 712/2)
لیکن انہیں نقل واقعہ کے وقت ان کی موجودہ حالت کی وجہ سے مشرکین کہا گیا کیونکہ اعتبار انجام کا ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
چونکہ اس روایت میں معبودان باطلہ لات، منات اور عزیٰ کا ذکر ہے، اس لیے بعض حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی تو مشرکین خوشی میں آ کر اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں جو غرانیق کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
حق یہ ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کا جلال و جبروت دیکھ کر اور قرآن کریم کے مواعظ عقلیہ سے متاثر ہو کر سجدہ کیا، ان کے ہاں کوئی اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1067