صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ -- طلاق کے احکام و مسائل
9. باب وُجُوبِ الإِحْدَادِ فِي عِدَّةِ الْوَفَاةِ وَتَحْرِيمِهِ فِي غَيْرِ ذَلِكَ إِلاَّ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ:
باب: سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 3731
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ ، تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّهَا : أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَكُونُ فِي شَرِّ بَيْتِهَا فِي أَحْلَاسِهَا أَوْ فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا فِي بَيْتِهَا حَوْلًا، فَإِذَا مَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعْرَةٍ فَخَرَجَتْ، أَفَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا "،
حمید بن نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ اپنی والدہ سے حدیث بیان کر رہی تھیں کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہو گیا، انہیں اس کی آنکھ کے بارے میں (بیماری لاحق ہونے کا) خطرہ محسوس ہوا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی اپنے گھر کے بدترین حصے میں اپنے ٹاٹوں میں۔۔ یا فرمایا: اپنے بدترین ٹاٹوں میں اپنے گھر کے اندر۔۔۔ سال بھر رہتی، اس کے بعد جب کوئی کتا گزرتا تو وہ ایک لید پھینکتی اور باہر نکلتی تو کیا (اب) چار مہینے دس دن (صبر) نہیں (کر سکتی
حمید بن نافع کو حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی والدہ سے روایت سنائی کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا، تو اس کے گھر والوں کو اس کی آنکھوں کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سرمہ لگانے کی اجازت طلب کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ایک بدترین گھر میں، ٹاٹ یا جھل پہن کر، یا بدترین کپڑا پہن کر اپنے گھر میں ایک سال رہتی تھی، اور جب اس کے سامنے سے کتا گزرتا (ایک سال کے بعد) تو مینگنی پھینک کر (کٹیا سے) نکلتی۔ تو کیا اب چار ماہ اور دس دن گزارنا مشکل ہے؟
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233  
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: عَشْرًا! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالت عدت میں آنکھوں میں سرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکزینت دوران عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 233  
´سوگ صرف تین دن ہے`
«. . . أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليال، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]

. . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 233]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5334 5337، ومسلم 1486 1489، من حديث مالك به]
[● من رواية يحيى بن يحيى وجاء فى الأصل: عَشْرًا! ** وفي رواية يحيى بن يحيى: وَالْحِفْشُ الْبَيْتُ الرَّدِئُ]
تفقه:
➊ عدت گزر جانے کے بعد عدت کی ممنوعات کو ختم کر دینا چاہئے۔
➋ ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے اگرچہ بظاہر کسی مشکل کا سامنا ہو۔
➌ حالتِ عدت میں آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سمیت کسی قسم کی زینت کی اجازت نہیں ہے۔ ➍ صحابیات اور صحابۂ کرام ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➎ اسلام عورت کے تحفظ اور عزت کا ضامن ہے۔
➏ عورت پر شوہر کی وفات پر ترکِ زینت دورانِ عدت فرض ہے جبکہ کسی اور کی وفات پر تین دن تک ترکِ زینت کرنا جائز ہے واجب نہیں۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی وفات پر ایک دن بھی سوگ (ترک زینت) نہیں کیا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 5470، وصحيح مسلم 2144]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 318   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 950  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر وفات پا گیا ہے اور بیٹی آشوب چشم میں مبتلا ہو گئی ہے کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ فرمایا نہیں (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 950»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب تحد المتوفي عنها أربعة أشهر وعشرًا، حديث:5336، ومسلم، الطلاق، باب وجوب الإحداد....، حديث:1488.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ سوگ منانے والی عورت کے لیے سرمے کا استعمال حرام ہے جبکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت نے فتویٰ پوچھا تو انھوں نے کہا: رات کے وقت لگا لو اور دن کے وقت اسے دھو ڈالو جیسا کہ موطا امام مالک وغیرہ میں ہے۔
(الموطأ للإمام مالک‘ الطلاق‘ باب ماجاء في الإحداد) اور ابوداود کے الفاظ ہیں: پس تو رات کو سرمہ لگا لے اور دن میں اسے دھو ڈال۔
(سنن أبي داود‘ الطلاق‘ حدیث: ۲۳۰۵) اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت سرمہ لگانا جائز ہے بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو‘ تاہم اس کا ترک کرنا اولیٰ ہے۔
سرمے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ یہ خوبصورتی کا موجب ہے‘ لہٰذا اگر سرمہ سفید ہو جس میں زینت بھی نہ ہو تو دن کے اوقات میں بھی اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 950   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1197  
´شوہر کی موت پر عورت کی عدت کا بیان۔`
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔‏‏‏‏ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: (اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1197]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سال بھرکے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہرجب انتقال کرجاتا تو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جا رہتی اورخراب سے خراب کپڑاپہن لیتی تھی اورسال پورا ہو نے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیزکو ہاتھ لگاتی پھرکوئی جانور،
گدھا،
بکری،
یا پرندہ اس کے پاس لا یا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرم گاہ کو رگڑتی اور جس جانورسے وہ رگڑتی عام طورسے وہ مرہی جاتا،
پھروہ اس تنگ وتاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دورکرتی اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1197   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2299  
´شوہر کی وفات پر بیوی کے سوگ منانے کا بیان۔`
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2299]
فوائد ومسائل:
1: (إحداد) کے لغوی معنی ہیں زیب وزینت چھوڑدینا اسی کو سوگ منانا کہا جا تاہے۔

2: جاہل لوگ اپنے کفر وشرک کی ریتوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی شریعت کی رضا ورغبت سے پابندی کریں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2299