صحيح البخاري
كِتَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ -- کتاب: سجود قرآن کے مسائل
4. بَابُ سَجْدَةِ النَّجْمِ:
باب: سورۃ النجم میں سجدہ کا بیان۔
قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
حدیث نمبر: 1070
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا، فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابواسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد (مسلمان اور کافر) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص (امیہ بن خلف) نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت ہی میں قتل ہوا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3853  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ , فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: هَذَا يَكْفِينِي فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3853]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3853 کا باب: «بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر جو مشرکین کی طرف سے مشکلات ہوئیں اشارہ کیا جا رہا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بظاہر کسی بھی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«كان حق هذا الحديث أن يذكر فى باب الهجرة الي الحبشة المذكور هو قليل فسيأتى فيها أن سجود المشركين المذكور فيه سبب رجوع من هاجر الهجرة الأولي إلى الحبشة لظنهم أن المشركين كلهم أسلموا .» [فتح الباري لابن حجر: 143/7]
اس حدیث کا حق یہ تھا کہ اسے ہجرت کے باب میں ذکر کیا جائے، پس تحقیق اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس میں کہ مشرکین کا اس میں سجدہ کرنا تھا (مسلمان) یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہو گئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی طرف نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کی طرف نکل گئے، پس یہاں پر مسلمانوں کو تکلیف جو ہوئی یہیں سے ترجمتہ الباب کی مناسبت بنتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمہ الباب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث ان امتناع الرجال المذكور فيه عن السجدة مع المسلمين ومخالفة اياهم نوع أذي لهم فلا يخفي ذالك» [عمدة القاري للعيني: 458/16]
باب سے مطابقت حدیث کے یوں ہے کہ اس شخص نے (امیہ بن خلف) نے سجدہ سے انکار کر دیا، پس یہ انکار کر دینا مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھا اور یہ کسی سے بھی مخفی نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1406  
´سورۃ النجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا: میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1406]
1406. اردو حاشیہ:
➊ سورہ نجم میں سجدہ تلاوت ہے۔
➋ پڑھنے اور سننے والے سب ہی سجدہ کریں۔
➌ تکبر سے خیر کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ اُمیہ بن خلف تھا۔ جو کفار مکہ کے سرداروں میں سے تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1406   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1070  
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم له بالحسنیٰ فأسلم لبرکة السجود۔
یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا (خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال)
ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔
بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔
آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔
خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے، یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے:
وعن علي ما ورد الأمر فیه بالسجود عزیمة۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں۔
(فتح)
مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔
واللہ أعلم وعلمه أتم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1070   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1070  
1070. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورہ نجم تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ ایک آدمی کے علاوہ قوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی مٹھی بھر لی اور اسے اپنے چہرے کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: مجھے تو یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: میں نے اسے دیکھا کہ وہ بعد میں (میدان بدر میں) بحالت کفر قتل ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1070]
حدیث حاشیہ:
اس شخص کے متعلق مختلف روایات ہیں:
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ وہ ولید بن مغیرہ تھا لیکن وہ میدان بدر میں قتل نہیں ہوا۔
بعض روایات میں سعید بن عاص اور ابولہب کا ذکر ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کرنے والے وہ قریشی تھے جو شہرت کے طلبگار تھے۔
سنن نسائی میں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ تھا، لیکن یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔
امام بخاری ؒ نے خود ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ امیہ بن خلف تھا۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے صرف ایک آدمی کو دیکھا ہو گا جس نے کنکریوں سے مٹھی بھر کر انہیں اپنے چہرے کی طرف اٹھا لیا تھا اور اسے انہوں نے بیان کر دیا۔
(فتح الباري: 712/2)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1070