صحيح مسلم
كِتَاب الْعِتْقِ -- غلامی سے آزادی کا بیان
1. باب ذِكْرِ سِعَايَةِ الْعَبْدِ:
باب: غلام کی محنت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3773
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ فِي عَبْدٍ فَخَلَاصُهُ فِي مَالِهِ، إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ اسْتُسْعِيَ الْعَبْدُ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ".
3773. اسماعیل بن ابراہیم نے ہمیں ابن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں سے اپنا حصے آزاد کیا، اگر اس کے پاس مال ہے تو اس (غلام کے باقی حصے) کی آزادی اسی کے مال میں سے ہو گی اور اگر اس کے پاس مال نہیں تو (آزادی دلانے کے لیے) کسی مشقت میں ڈالے بغیر غلام سے کام کروایا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا، تو اس کو آزاد اس کے مال سے کیا جائے گا اگر وہ مال دار ہے اگر اس کے پاس مال نہیں ہے، تو غلام سے محنت و مزدوری (کمائی) کرائی جائے گی لیکن اس کو مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2527  
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی (مشترک) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرائے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے باقی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مزدوری کرائے، لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2527]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایک غلام ایک سے زیادہ افرد کا مملوک ہوسکتا ہے مثلاً:
ایک شخص کے پاس ایک غلام تھا وہ فوت ہوا تو اس کے دو بیٹے اس وارث ہوگئے یہ ونوں اس کی ملکیت میں برابر شریک ہیں۔
یا چند افراد نے رقم ملا کرخرید لیا تو یہ ان کی مشترکہ ملکیت ہو گا۔

(2)
مشترکہ غلام کا ایک مالک اپنا حصہ آزاد کردے تو باقی حصہ خود بخود آزاد نہیں ہوگا۔

(3)
اس صورت میں آزاد کرنے والے کو چاہیے کہ غلام کی جائز قیمت میں سے اس کے شریکو ں کا جو حصہ ہے انھیں ادا کرکے غلام کا باقی حصہ بھی خرید کر آزادکردے تاکہ غلام کی آزادی مکمل کی ہوجائے۔

(4)
دوسری صورت یہ ہے کہ اس آدھے غلام کو موقع دیا جائے کہ وہ کما کراپنی آدھی قیمت اپنے مالک کو ادا کردے جس نے اپنے حصے کا غلام آزاد نہیں کیا۔

(5)
اس غلام پر جلد آدائیگی کے لیے ناجائز سختی کرنا منع ہے بلکہ جس طرح مقروض کو مہلت دی جاتی ہے اسے بھی مناسب مہلت دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2527   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3938  
´جس شخص کے نزدیک آزاد کرنے والا مفلس ہو تو غلام سے محنت کرائی جائے اس کی دلیل کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس پر اس کی مکمل خلاصی لازم ہو گی اور اگر وہ مالدار نہیں ہے تو غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی پھر اس قیمت میں دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر اس سے اس طرح محنت کرائی جائے گی کہ وہ مشقت میں نہ پڑے (یہ علی کے الفاظ ہیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3938]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں ترغیب ہے کہ اپنا حصہ آزاد کر نے والا باقی بھی آزاد کر کے مکمل فضیلت حاصل کرے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3773  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شِقْصٌ:
حصہ،
اس کو شقیص بھی کہتے ہیں۔
(2)
اُسْتُسْعِي:
اس سے محنت ومزدوری کروائی جائے گی،
تاکہ دوسرے حصہ دار کے حصہ کی رقم اس کو ادا کر دی جائے۔
(3)
غَيْرِ مَشْقُوقٌ عَلَيه:
بغیر اس کے کہ اس کو مشقت اور کلفت میں ڈالا جائے،
آسانی اور سہولت سے وہ کما کردےدے۔
فوائد ومسائل:
اگر ایک غلام میں ایک سے زائد حصہ دار ہیں اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دیتا ہے تو باقی حصہ کے بارے میں کیا ہوگا،
اس کے بارے میں مشہور اقوال تین ہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو اس کا حصہ آزاد ہو گیا۔
اور اس کے شریک کو اختیار ہے،
چاہے تو اپنا حصہ آزاد کر دے،
یا غلام سے محنت و مزدوری کروا کر اپنے حصہ کو منصفانہ قیمت وصول کر لے اور غلام مکاتب کے حکم میں ہو گا اور ان دونوں صورتوں میں ولاء (نسبت)
حصہ داروں میں مشترک ہو گی،
یا آزاد کرنے والے کو باقی حصہ کا ضامن ٹھہرایا جائے گا،
اور اس سے عادلانہ قیمت وصول کر لی جائے گی۔
اور ولاء صرف آزاد کرنے والے کے لیے ہوگی۔
اگر آزاد کرنے والا مال دار نہیں ہے تو مذکورہ پانچ صورتوں پر عمل ہوگا۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک اگر آزاد کرنے والا مال دار ہے تو پورا غلام آزاد ہو جائے گا۔
اور وہ دوسرے حصہ دار کو عادلانہ قیمت ادا کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔
اور اگر وہ غریب ہے تو رقم غلام سے محنت و مزدوری کروا کر ادا کرے گا۔
اور دونوں صورتوں میں ولاء کا حق دار وہی ہو گا۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
کےنزدیک اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو غلام پورا آزاد ہو جائے گا،
اور وہ اپنے شریک کو اس کے حصہ کی منصفانہ قیمت دے گا۔
اور اگر غریب ہے تو غلام کا اتنا حصہ آزاد ہو گا۔
جتنا اس نے آزاد کیا ہے،
باقی حصہ غلام ہے اور شریک اس سے اپنے حصہ کے بقدر خدمت اور کام لے سکے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ان کے نزدیک مال دار ہونے کی صورت میں جب وہ اپنے حصہ دار کو رقم ادا کردے گا،
تو اس کے بعد غلام مکمل آزاد ہوگا،
محض ضمانت پر آزاد نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3773