صحيح البخاري
كِتَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ -- کتاب: سجود قرآن کے مسائل
6. بَابُ مَنْ قَرَأَ السَّجْدَةَ وَلَمْ يَسْجُدْ:
باب: سجدہ کی آیت پڑھ کر سجدہ نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1072
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا".
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے خبر دی، انہیں (یزید بن عبداللہ) ابن قسیط نے، اور انہیں عطاء بن یسار نے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔ آپ نے یقین کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم کی تلاوت آپ نے کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1298  
´امام کے پیچھے جہری قرأت`
«. . سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ، فَقَالَ: لَا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ . . .»
. . . سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا: امام کے پیچھے کچھ نہ پڑھنا چاہیئے . . .

فقہ الحدیث
یعنی امام کے ساتھ کسی نماز میں بھی جہری قرأت نہیں کرنی چاہئیے، بلکہ خفیہ آواز کے ساتھ سراً دل میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 19   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 273  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو سورۃ «النجم» کی قرآت کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 273»
تخریج:
«أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب من قرأ السجدة ولم يسجد، حديث:1072، ومسلم، المساجد، باب سجود التلاوة، حديث:577.»
تشریح:
1. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۂ نجم میں سجدہ نہ کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اس سورت کا سجدہ مشروع نہیں۔
یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ اس میں کبھی تو آپ نے سجدہ کیا جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث گزر چکی ہے اور کبھی آپ نے چھوڑ دیا۔
2. یہ حدیث سجود تلاوت کے سنت ہونے کی دلیل ہے‘ اگر یہ واجب ہوتے تو پھر آپ کبھی نہ چھوڑتے۔
کبھی کر لینا اور کبھی نہ کرنا ہی اس کے سنت ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
جمہور کا مسلک ہی صحیح ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسعید یا ابو خارجہ ان کی کنیت ہے۔
انصار کے مشہور قبیلہ نجار سے تعلق رکھتے تھے۔
وحی کی سب سے زیادہ کتابت یہی کیا کرتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے فرائض‘ یعنی علم میراث کے بڑے ماہر تھے۔
خندق کا معرکہ وہ پہلا معرکہ ہے جس میں یہ شریک ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جمع قرآن کی خدمت انھی نے انجام دی تھی اور عہد خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی نقول بھی آپ ہی نے تیار کی تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی تعمیل میں یہود کا رسم الخط صرف پندرہ دن میں سیکھ لیا تھا اور آپ کے خطوط تحریر کرتے اور اس کے بعد آپ کو پڑھ کر سنا دیا کرتے تھے۔
۴۵ ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔
کچھ اور بھی اقوال ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 273   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1404  
´مفصل میں سجدہ نہ ہونے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ النجم پڑھ کر سنائی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1404]
1404. اردو حاشیہ: سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ اس لئے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ مگر اس سے تسائل اور غفلت کو اپنی عادت بنا لینا کسی طرح درست نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1404   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1072  
1072. حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے (سجدہ تلاوت کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے سامنے سورہ نجم پڑھی تھی لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1072]
حدیث حاشیہ:
آپ کے اس وقت سجدہ نہ کرنے کی کئی وجوہ ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوترک حینئذ لبیان الجواز وھذا رجح الاحتمالات وبہ جزم الشافعی (فتح)
یعنی آپ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کا ترک بھی جائز ہے اسی تاویل کو ترجیح حاصل ہے امام شافعی کا یہی خیال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1072