صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
8. باب بُطْلاَنِ بَيْعِ الْمَبِيعِ قَبْلَ الْقَبْضِ:
باب: قبضہ سے پہلے خریدار کو دوسرے کے ہاتھ بیچنا درست نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 3847
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَاهُ ، قَال: " قَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ابْتَاعُوا الطَّعَامَ جِزَافًا، يُضْرَبُونَ فِي أَنْ يَبِيعُوهُ فِي مَكَانِهِمْ، وَذَلِكِ حَتَّى يُؤْوُوهُ إِلَى رِحَالِهِمْ ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَشْتَرِي الطَّعَامَ جِزَافًا، فَيَحْمِلُهُ إِلَى أَهْلِهِ.
یونس نے مجھے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے سالم بن عبداللہ نے بتایا کہ ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کو دیکھا کہ جب وہ (ناپ تول کے بغیر) اندازے سے غلہ خریدتے تو اس بات پر انہیں مار پڑی تھی کہ وہ اس کو گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے، اسی جگہ اسے بیچیں۔ ابن شہاب نے کہا: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد اندازے سے غلہ خریدتے، پھر اسے اپنے گھر اٹھا لاتے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کو دیکھا کہ جب وہ اناج کا ڈھیر خریدتے اور اس جگہ بیچ دیتے، تو انہیں مار پڑتی، حتیٰ کہ وہ اسے اپنے گھر منتقل کر لیتے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499  
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229  
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔

(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494  
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3494   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3847  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر ایک انسان نے کوئی چیز ناپ تول سے خریدی ہے اور آگے اسی طرح فروخت کرنی ہے تو اس کا دوبارہ ناپ تول کرنا ہوگا،
اور اگر ڈھیر خریدا ہے تو قبضہ کرنے کے بعد اس کو ڈھیر کی صورت میں بیچنا درست ہے۔
اگر ایک چیز ناپ تول کر لی ہے تو قبضہ کے بعد اس کو ڈھیر کی صورت میں بیچا جا سکتا ہے۔
اگر ڈھیر خریدا ہے،
تو اس کو ناپ تول کر کے دینا بھی جائز ہے،
لیکن اگر ایک آدمی نے ایک مال یا غلہ،
ناپ تول سے خریدا ہے اور وہ اسے دوسرے آدمی کو ناپ تول سے دینا چاہتاہے اور دوسرا آدمی پہلے تول یا ناپ کو دیکھ رہا ہے تو کیا پہلے ناپ تول کو کافی سمجھا جا سکتا ہے یا دوبارہ ناپ تول کرنا ہو گا؟ تو اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ ناپ یا تول دوبارہ کیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3847