صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
8. باب بُطْلاَنِ بَيْعِ الْمَبِيعِ قَبْلَ الْقَبْضِ:
باب: قبضہ سے پہلے خریدار کو دوسرے کے ہاتھ بیچنا درست نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 3850
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا ابْتَعْتَ طَعَامًا فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَهُ ".
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "جب تم غلہ خریدو تو اسے پوری طرح قبضے میں لینے سے پہلے نہ بیچو
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے جب تم اناج خریدو تو اسے ناپ تول کیے بغیر یعنی قبضہ میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2228  
´قبضے سے پہلے اناج بیچنا منع ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کو بیچنے سے منع کیا ہے جب تک اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے صاع نہ چلیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2228]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کوئی شخص غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اسے وہاں سے اٹھا لے، پھر دوسری جگہ جا کر فروخت کرے۔

(2)
بعض لوگ سودے پر سودا کرتے چلے جاتے ہیں، اور نفع لے لیتے ہیں جب کہ سامان سٹور میں پڑا ہوتا ہے اسے دیکھتے بھی نہیں کہ یہ کتنی قیمت کا ہے، درست ہے یا خراب ہے اس کا جتنا وزن بتایا جا رہا ہے پورا ہے یا نہیں۔
اس کا نقصان آخر میں خریدنے والے کو ہوتا ہے جو اسے اپنے استعمال کے لیے خریدتے ہے، اور اس وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں۔

(3)
بغیر دیکھے خرید وفروخت کی صورت میں ایسے لوگ خریدتے ہیں جنہیں ضرورت نہیں ہوتی۔
اور وہ بغیر محنت کے نفع لے لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیز صارفین تک مہنگی ہو کر پہنچتی ہے۔
اور مال کے مالک (کسان)
کو بہت کم قیمت ملتی ہے۔

(4)
دو پیمانوں سے ماپنے کا مطلب ہے کہ پہلے ماپ کر خریدا جائے، پھر بیچتے وقت دوبارہ ماپ کر خریدار کے حوالے کیا جائے۔
تولنے والی چیز کو اسی طرح دوبارہ تولا جانا چاہیے، اور گنی جانے والی چیز بھی گن کر وصول کی جائے اور پھر بیچتے وقت گن کر گاہک کے حوالے کی جائے تاکہ کسی مقام پر کسی سے دھوکا نہ ہو۔

(5)
مال چیک کرکے خریدنے او رچیک کرا کے فروخت کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ مال کی اصل کیفیت خریدار کے سامنے آ جاتی ہے۔
اس کا معیار یا عیب وغیرہ سامنے آ جاتا ہے جس سے ہر شخص کو اس کی جائز قیمت ملتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2228