صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
13. باب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلاَحِهَا بِغَيْرِ شَرْطِ الْقَطْعِ:
باب: میوہ جب تک اس کی صلاحیت کا یقین نہ ہو درخت پر بیچنا درست نہیں جب کاٹنے کی شرط نہ ہوئی ہو۔
حدیث نمبر: 3873
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ، فَقَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يَأْكُلَ مِنْهُ، أَوْ يُؤْكَلَ، وَحَتَّى يُوزَنَ "، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا يُوزَنُ؟ فَقَالَ: رَجُلٌ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْزَرَ.
ابو بختری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کھجور کی بیع کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی بیع سے منع فرمایا حتی کہ وہ اس سے خود کھا سکے یا وہ کھائے جانے کے قابل ہو جائے، اور یہاں تک کہ اس کا وزن کیا جا سکے۔ میں نے کہا: اس کا وزن کیے جانے سے کیا مراد ہے؟ ان کے پاس موجود ایک شخص نے کہا: اس (کے وزن) کا اندازہ لگایا جا سکے
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کھجوروں کی بیع کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو بیچنے سے منع فرمایا، حتیٰ کہ وہ کھا سکے یا کھلا سکے اور وزن کے قابل ہو جائیں، وزن کے قابل ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا، درخت پر اس کا اندازہ لگایا جا سکے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3873  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حتي يحزر کا مقصد ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کتنی ہوں گی،
درختوں پر پھل کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ وہ پکنے کے بعد کتنا ہو گا،
اور بعض نے اس کا یہ معنی کیا ہے کہ اس کی حفاظت و صیانت کی جائے،
بہرحال اصل مقصد پکنے کی صلاحیت کا ظہور ہے،
کیونکہ اس کے بعد ہی مالک اس کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے اور اس کی مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3873