صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ:
باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان اور اقامت کی حالت میں کتنی مدت تک قصر کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1081
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قُلْتُ: أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا؟ قَالَ: أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو، دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 470  
´حضر میں ظہر کی نماز کی تعداد کا بیان۔`
ابن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 470]
470 ۔ اردو حاشیہ: مدینہ منورہ میں تو مکمل نماز پڑھی گئی، پھر سفر شروع ہو گیا، ذوالحلیفہ چونکہ شہر سے باہر ہے، سفر لمبا تھا، لہٰذا ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز کا وقت آجانے پر قصر، یعنی دو رکعت پڑھی گئی۔ یاد رہے یہ حج کا سفر تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 470   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 478  
´سفر میں عصر کی نماز کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت، اور ذوالحلیفہ میں نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 478]
478 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 470 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 478   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1077  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1077]
اردو حاشہ:
فائده:
تردد کی صورت میں مدت کا تعین نہیں جتنا عرصہ بھی ٹھہریں نمازقصر اداکرسکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1077   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 345  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک دو، دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔ (بخاری و مسلم) البتہ متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 345»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1081، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:693.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو وہ مسافر کی تعریف میں آجاتا ہے۔
حدود شہر‘ یعنی موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد‘ خواہ ایک میل کا سفر طے کیا ہو‘ نماز قصر ادا کرنا شروع کر سکتا ہے اور واپسی تک دوگانہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 345   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 546  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
1؎:
جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی،
جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔

2؎:
ذوالحلیفہ:
مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے،
یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1201  
´مسافر قصر کب کرے؟`
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1201]
1201۔ اردو حاشیہ:
تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لئے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لئے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے اس لئے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل یعنی 22، 23 کلو میٹر ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1201   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1081  
1081. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ اس سفر کے دوران میں مدینہ واپسی تک نماز دو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: آپ لوگ مکہ مکرمہ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، وہاں ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1081]
حدیث حاشیہ:
(1)
واضح رہے کہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا سفر بیان ہوا ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ ہم چار ذوالحجہ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے مکہ پہنچے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1085)
رسول اللہ ﷺ چودہ ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
گویا مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں آپ نے دس دن قیام فرمایا۔
اس سفر کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ آئے، پھر آٹھ ذوالحجہ کی نماز ظہر منیٰ میں ادا کی، اس طرح آپ نے مکہ مکرمہ میں تقریباً بیس نمازیں ادا کی ہیں، پہلے دن کی نماز فجر کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ نے راستے میں ادا کی یا مکہ میں، البتہ بیس نمازوں کا مکہ مکرمہ میں ادا کرنا یقینی ہے۔
4 ذوالحجہ:
ظہر اور عصر۔
6 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
7 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء، فجر، ظہر اور عصر۔
8 ذوالحجہ:
مغرب، عشاء اور فجر۔
یہ کل بیس نمازیں ہیں جو آپ نے مکہ مکرمہ میں ادا کی ہیں۔
آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ روانہ ہوئے اور ظہر کی نماز وہاں مسجد خیف میں ادا فرمائی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث انس اقامت کی نیت سے ٹھہرنے کی دلیل ہے، کیونکہ اس دوران میں آپ کو کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ آپ ان دنوں پختہ نیت سے ٹھہرے ہیں۔
(فتح الباري: 726/2)
مدت اقامت کے متعلق ہمارے نزدیک راجح مسلک یہ ہے کہ جو آدمی آمد اور روانگی کے دونوں دن چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی ہو گی کیونکہ مکہ مکرمہ میں آپ کی مدت اقامت آمد اور روانگی کا دن نکال کر تین دن ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور نماز قصر ادا کی ہو یا اس مدت سے کم قیام کیا ہو اور پوری نماز پڑھی ہو۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام فرمایا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا۔
اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دوران سفر اگر کسی مقام پر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہو تو نماز قصر کرنے کا ثبوت خود رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ملتا ہے۔
اس موقف کی تائید رسول اللہ ﷺ کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3298(1352)
اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا، اس لیے فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین راتوں کے قیام سے ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے۔
اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن نکال کر اگر پورے تین دن اور تین راتیں قیام کا پختہ ارادہ ہو تو نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ دن قیام کرنا ہو تو نماز پوری پڑھنی ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1081