صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
16. باب النَّهْيِ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَعَنِ الْمُخَابَرَةِ وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلاَحِهَا وَعَنْ بَيْعِ الْمُعَاوَمَةِ وَهُوَ بَيْعُ السِّنِينَ:
باب: محاقلہ اور مزابنہ اور مخابرہ کی ممانعت اور پھل کی بیع قبل صلاحیت کے اور معاومہ کا منع ہونا۔
حدیث نمبر: 3913
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، وَسَعِيدِ بْنِ مِينَاءَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ: الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُعَاوَمَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: بَيْعُ السِّنِينَ هِيَ: الْمُعَاوَمَةُ، وَعَنِ الثُّنْيَا، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا ".
سلیم بن حیان نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن میناء نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ، محاقلہ، مخابرہ اور رنگ تبدیل ہونے (اشقاح) سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا۔ (سلیم بن حیان نے) کہا: میں نے سعید سے پوچھا: اشقاح سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: ان میں سرخی اور زردی پیدا ہو جائے اور اس میں سے کھایا جا سکے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومۃ اور مخابرہ سے منع فرمایا۔ حضرت جابر کے دو شاگردوں میں سے ایک نے کہا، معاومہ کا مطلب ہے کئی سال کے لیے باغ بیچ دینا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے استثناء سے منع فرمایا اور عرایا کی فروخت کی اجازت دی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1290  
´بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1290]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(1224)

2؎:
مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا،
یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں،
بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے،
ایسا کرنے سے منع کیا گیاہے،
کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والا تباہ ہوجاتا ہے،
اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے،
اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے،
اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔

3؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔
اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3375  
´کئی سال کے لیے پھل بیچ دینا منع ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاومہ (کئی سالوں کے لیے درخت کا پھل بیچنے) سے روکا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان میں سے ایک (یعنی ابو الزبیر) نے (معاومہ کی جگہ) «بيع السنين» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3375]
فوائد ومسائل:

کسی باغ یا مخصوص درختوں کے پھل کوکئی سالوں کےلئے پیشگی فروخت کرنا منع ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں کہ ان پر پھل آئے گا بھی یا نہیں۔
کم آئے گا یا زیادہ۔
لیکن بیع سلم (یا سلف) مختلف بیع ہے۔
اس میں خریدار بائع کو پیشگی رقم ادا کر دیتا ہے۔
کہ موسم آنے پر فلاں پھل یا فلاں جنس اس معیارکی اتنی مقدار میں مہیا کرنا ہوگی تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ کسی خاص کھیت یا خاص درخت یا باغ کی پیداوار کا سودا نہیں ہوتا۔
بلکہ ایک خاص معیار کی جنس یا پھل کا سودا ہوتا ہے۔
جو کہیں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔


اس وقت جو سودے ہوچکے تھے۔
اور آفات کی جگہ سے پیداوار میں نقصان ہوا تھا اس کی تلافی کرائی گئی اور آئندہ کےلئے پھل وغیرہ قابل استعمال ہونے کے بعد بیع کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3375   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3913  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معاومہ،
عام یا سال سے ہے،
جس کا مقصد کسی پھل دار درخت یا باغ کو چند سال کے لیے فروخت کرنا،
اور اس کو منع کرنے کا سبب غرر کا احتمال ہے،
کیونکہ معلوم نہیں اگلے سال پھل آئے گا یا نہیں،
اور اگر آئے گا تو باقی رہے گا یا کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے گا،
جس سے خریدار کو نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرے گا،
جس سے آپس میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو گا۔
ثنیا:
اس سے مراد باغ کے کسی درخت کو فروخت کرنے سے مستثنیٰ قرار دینا ہے،
اگر بائع اپنا باغ فروخت کرتا ہے،
یا کوئی اور چیز فروخت کرتا ہے اور ایک غیر متعین درخت یا چیز کا استثناء کر لیتا ہے،
مثلا کہے کہ دو درخت یا ایک درخت میرا ہو گا۔
یا کچھ چیز میری ہو گی تو یہ بالاتفاق منع ہے۔
لیکن اگر درختوں کی تعداد معلوم ہے یا چیز کی مقدار معلوم ہے پھر وہ ایک مخصوص اور معین فروخت کو مستثنیٰ کر لیتا ہے یا چیز کی معین مقدار کا استثناء کر لیتا ہے تو پھر بالاتفاق جائز ہے۔
لیکن اگر سامان کی مقدار معلوم نہیں ہے،
مثلا گندم کا ڈھیر پڑا ہے معلوم نہیں ہے کہ گندم کتنی ہے پھر اگر وہ معین مقدار کا استثناء کرتا ہے،
مثلا اس ڈھیر سے دو صاع میں رکھوں گا۔
تو پھر امام ابو حنیفہ،
شافعی اور جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
لیکن امام مالک کے نزدیک جائز ہے۔
صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر بہت کم چیز کا استثناء آتا ہے،
جس میں نزاع اور جھگڑے کا خطرہ نہیں ہے،
تو جائز ہونا چاہیے،
جس طرح اس صورت میں جائز ہے،
جب یہ کہتا ہے،
اس کا آدھا حصہ میرا ہو گا یا چوتھا حصہ میرا ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3913