صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ -- لین دین کے مسائل
17. باب كِرَاءِ الأَرْضِ:
باب: زمین کو کرایہ پر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3915
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِي مَعْرُوفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ، وَعَنْ بَيْعِهَا السِّنِينَ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَطِيبَ ".
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔ اسی کے مانند، البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے اور اس کو چند سال کے لیے بیچنے سے بھی، اور پھل کو پختہ (شیریں) ہونے سے پہلے بیچنے سے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1290  
´بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1290]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(1224)

2؎:
مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا،
یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں،
بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے،
ایسا کرنے سے منع کیا گیاہے،
کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والا تباہ ہوجاتا ہے،
اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے،
اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے،
اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔

3؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔
اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3375  
´کئی سال کے لیے پھل بیچ دینا منع ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاومہ (کئی سالوں کے لیے درخت کا پھل بیچنے) سے روکا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان میں سے ایک (یعنی ابو الزبیر) نے (معاومہ کی جگہ) «بيع السنين» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3375]
فوائد ومسائل:

کسی باغ یا مخصوص درختوں کے پھل کوکئی سالوں کےلئے پیشگی فروخت کرنا منع ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں کہ ان پر پھل آئے گا بھی یا نہیں۔
کم آئے گا یا زیادہ۔
لیکن بیع سلم (یا سلف) مختلف بیع ہے۔
اس میں خریدار بائع کو پیشگی رقم ادا کر دیتا ہے۔
کہ موسم آنے پر فلاں پھل یا فلاں جنس اس معیارکی اتنی مقدار میں مہیا کرنا ہوگی تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ کسی خاص کھیت یا خاص درخت یا باغ کی پیداوار کا سودا نہیں ہوتا۔
بلکہ ایک خاص معیار کی جنس یا پھل کا سودا ہوتا ہے۔
جو کہیں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔


اس وقت جو سودے ہوچکے تھے۔
اور آفات کی جگہ سے پیداوار میں نقصان ہوا تھا اس کی تلافی کرائی گئی اور آئندہ کےلئے پھل وغیرہ قابل استعمال ہونے کے بعد بیع کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3375   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3915  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زمین کسی کو کرایہ پر دینے کا مقصد ہے کسی کو کاشت کے لیے اجرت اور مزدوری پر دینا۔
زمین کاشت کے لیے دینے کی چار صورتیں بن سکتی ہیں۔

زمیندار،
مزارع یا کاشت کار کو زمین اس شرط پر دیتا ہے،
کہ میں اس زمین کے عوض،
پیداوار میں سے بیس من یا سو من لوں گا،
یہ صورت فقہاء کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں ہے کس قدر پیداوار حاصل ہو گی یا حاصل بھی ہو گی یا کسی آفت کا شکار ہو جائے گی۔
اس طرح اس میں غرر اور دھوکا ہے۔

زمیندار،
کاشت کار کو زمین اس شرط پر دیتا ہے کہ فلاں فلاں ایکڑ کی پیداوار میری ہو گی اور باقی تیری ہو گی،
اس طرح بہترین حصہ اپنے لیے رکھتا ہے،
یہ بھی بالاتفاق ممنوع ہے،
کیونکہ اس میں بھی غرر کا خطرہ ہے۔
معلوم نہیں،
زمین کا کون سا حصہ،
کسی آفت کا شکار ہو جائے اور اس سے پیداوار حاصل نہ ہو سکے،
یا کس حصہ میں کتنی پیداوار ہو گی۔

زمیندار مزارع کو زمین ٹھیکہ پر دے،
ٹھیکہ سونا،
چاندی،
کسی کرنسی یا کسی اور چیز کی متعین اور طے شدہ مقدار کی صورت میں ہو گا۔
بہرحال یہ طے ہے کہ یہ ٹھیکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا معینہ مقدار میں نہیں ہو گا۔
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک یہ صورت جائز ہے،
لیکن امام ربیعہ الرائے کے نزدیک ٹھیکہ صرف سونے،
چاندی کے عوض ہو گا اور کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
اور امام مالک کے نزدیک غلہ و اناج کے سوا ہر چیز کے عوض جائز ہے،
امام شافعی،
امام ابو حنیفہ،
امام احمد،
صاحبین (ابو یوسف،
محمد)

اور جمہور کے نزدیک،
ہر چیز کے عوض جائز ہے۔
اس کی مقدار یا مالیت طے ہو گی،
لیکن حسن بصری،
امام طاؤس کے نزدیک زمین ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں ہے۔
امام ابن حزم کا موقف بھی یہی ہے،
اور اس نے یہ موقف عطاء،
عکرمہ،
مجاہد،
شعبی،
ابن سیرین،
قاسم بن محمد اور مسروق رحمۃ اللہ علیہم کا قرار دیا ہے۔
لیکن ان تابعین کے بعد کے تمام ائمہ اور فقہاء کا ٹھیکہ کے جواز پر اتفاق ہے۔
اس لیے امام ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں اس کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے۔
(المغني،
ج: 5،
ص: 429،
مطبوعة ادارۃ البحوث العلمیة والافتاء سعودي عرب)

زمیندار،
کسان کو زمین بٹائی یا حصہ پر دے،
جس کو مزارعت کا نام دیا جاتا ہے کہ اس سے جو پیداوار حاصل ہو گی اس کا آدھا حصہ لوں گا۔
اس میں کمی و بیشی بھی ہو سکتی ہے،
جس کا مدار،
زمیندار کی طرف سے کسان کو فراہم کردہ سہولتوں پر ہے۔
اس کے بارے میں ائمہ کے مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
مزارعت پر زمین دینا بلا قید جائز ہے،
امام احمد،
امام ابو یوسف اور امام محمد کا یہی نظریہ ہے۔
ابن حزم کا بھی یہی موقف ہے۔
بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا جواز ثابت ہے۔
بٹائی پر زمین دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہ اور زفر کا یہی موقف ہے۔
عکرمہ،
نخعی اور مجاہد بھی اس کے قائل تھے،
اور امام صاحب مساقات کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔
امام شافعی کے نزدیک مزارعت چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔
پہلی شرط یہ ہے کہ یہ مساقات (باغبانی)
کے ضمن میں ہو۔
یعنی اصل میں باغ حصہ پر دیا ہے اور اس کے اندر کچھ زمین بھی ہے جس کو کاشت کیا جاتا ہے۔
(4)
مزارعت اور مساقات ایک ہی کسان کر رہا ہو۔
(5)
معاملہ بیک وقت اور مشترکہ طے ہوا ہو،
الگ الگ نہیں۔
(6)
باغ کے اندر کی زمین کسی اور کو دینا ممکن نہ ہو۔
(7)
زمین میں بیج،
زمیندار ڈالے گا،
وغیرہ۔
مزارعت،
مساقات کی ضمن میں ہو گی اور باغ کی زمین دو تہائی ہو گی اور کاشت کے لیے زمین ایک تہائی یا اس سے کم ہو گی۔
یہ امام مالک کا نظریہ ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مزارعت اور مساقات دونوں جائز ہیں۔
احناف کا فتویٰ بھی صاحبین کے قول کے مطابق ہے اور امت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک اس پر عمل پیرا ہے۔
اور مزارعت سے جن حدیثوں میں منع کیا گیا ہے وہ مخصوص صورتیں ہیں جن میں غرر ہے،
جن کو ہم نے،
مزارعت کی پہلی اور دوسری صورت میں بیان کیا ہے۔
اور بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے زمینداروں کو،
جن کے پاس فالتو زمین تھی،
ان کو آپ نے ان لوگوں کے ساتھ جن کے پاس زمین نہیں تھی ہمدردی اور خیرخواہی اور ایثار و قربانی کا حکم دیا کہ تم فالتو زمین کاشت کے لیے انہیں دے دو،
جب ضرورت ہو تو اپنی زمین واپس لے لینا،
یہ دونوں باتیں کہ مزارعت کی مخصوص صورتیں منع ہیں۔
اور ہمدردی و خیرخواہی مطلوب ہے،
آنے والی حدیثوں سے ثابت ہو جائیں گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3915