صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
2. بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى:
باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1083
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنَ مَا كَانَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابواسحاق نے خبر دی، انہوں نے حارثہ سے سنا اور انہوں نے وہب رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں امن کی حالت میں ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تھی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 882  
´منیٰ میں نماز قصر پڑھنے کا بیان۔`
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 882]
اردو حاشہ:
1؎:
ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے،
مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے،
اور جو لوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 882   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1965  
´اہل مکہ کے لیے قصر نماز کا بیان۔`
ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1965]
1965. اردو حاشیہ: اس سےمعلوم ہوا کہ منی ٰ میں قصر کرنامناسک حج کا حصہ ہے اس لیے دیگر مسافرین کی طرح اہل مکہ بھی منیٰ میں نماز قصر کر کے ہی پڑھیں گے۔ البتہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اہل مکہ کامنی ٰ میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1965   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1083  
1083. حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بحالت امن منیٰ میں ہمیں دو رکعتیں پڑھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1083]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص ہے۔
وہ دلیل کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں بحالت سفر نماز قصر کو ہنگامی حالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے وضاحت فرمائی ہے کہ دوران سفر میں بحالت امن بھی قصر کی جا سکتی ہے۔
آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بنا پر کیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
(2)
امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ قصر کی دو اقسام ہیں:
٭ قصر ارکان، یعنی نماز کی ہئیت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔
٭ قصر عدد، یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے، چار کے بجائے دو۔
جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر، یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔
جب خوف اور سفر نہ ہو تو نماز کو پورا ادا کرنا ہو گا۔
جب خوف ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری ادا کی جائے گی، یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر تھا۔
جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو مقدار میں کمی ہو سکتی ہے، ارکان کی کمی جائز نہیں، اسے صلاۃ امن کہا جاتا ہے، البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر کہا جاتا ہے۔
تمام ارکان کے لحاظ سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا:
سفر کی نماز دو رکعت، جمعہ بھی دو رکعت، اسی طرح نماز عید بھی دو رکعت، یہ صلاۃ تمام ہے قصر نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے اور افترا پردازی کرنے والا نقصان میں رہے گا۔
(مسند أحمد: 1/37)
اس بحث کو امام ابن قیم ؒ نے بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔
(زادالمعاد: 1/466)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1083