صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
2. بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى:
باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1084
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ:" صَلَّى بِنَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَقِيلَ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ «انا لله و انا اليه راجعون» ۔ پھر کہنے لگے میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میں نے دو رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعت ہی پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1084  
1084. حضرت عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں۔ جب اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں، کاش کہ چار رکعتوں کے بجائے میرے حصے میں وہی دو رکعتیں آئیں جو اللہ کے ہاں مقبول ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1084]
حدیث حاشیہ:
حضور اکرم ﷺ اور ابو بکر اور عمر ؓ کی منیٰ میں نماز کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ آپ حضرات حج کے ارادہ سے جاتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے منیٰ میں بھی قیام کیا ہوتا۔
یہاں سفر کی حالت میں ہوتے تھے اس لیے قصر کرتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ ابو بکر اور عمر ؓ کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ منیٰ میں قصر کرتے تھے۔
عثمان ؓ نے بھی ابتدائی دور خلافت میں قصر کیا، لیکن بعد میں جب پوری چار رکعتیں آپ نے پڑھیں تو ابن مسعود ؓ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔
دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی پوری چار رکعت پڑھنے کا عذر بیان کیا تھا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1084   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1084  
1084. حضرت عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں۔ جب اس بات کا تذکرہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ بھی منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں، کاش کہ چار رکعتوں کے بجائے میرے حصے میں وہی دو رکعتیں آئیں جو اللہ کے ہاں مقبول ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1084]
حدیث حاشیہ:
(1)
روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صرف إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے پر اکتفا نہ کرتے۔
دیگر روایات کے پیش نظر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ان کے ہمراہ چار رکعات کیوں پڑھی ہیں؟ تو جواب دیا کہ ایسے موقع پر اختلاف کرنا شروفساد کا پیش خیمہ ہے۔
اگر دوران سفر میں نماز کو پورا پڑھنا بدعت ہوتا تو بدعت سے اختلاف کرنا تو باعث برکت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا فرض نہیں، البتہ جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر انہوں نے اپنی سخت ناگواری کا اظہار ضرور فرمایا۔
(فتح الباري: 729/2) (2)
حضرت عثمان ؓ نے حج کے موقع پر منیٰ میں قیام کے دوران چار رکعت پڑھائی تھیں۔
محدثین کرام نے اس کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔
اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر میں نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو یہ جائز ہے، ایسا کرنا بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1084