صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
2. باب فَضْلِ الْغَرْسِ وَالزَّرْعِ:
باب: درخت لگانے کی اور کھیتی کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3968
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، إِلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ ".
اسامہ بن زید لیثی نے مجھے نافع سے خبر دی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب خیبر فتح ہوا تو یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ انہیں اس شرط پر وہیں دینے دیں کہ وہ لوگ وہاں سے حاصل ہونے والی پھلوں اور غلے کی پیداوار کے نصف حصے پر کام کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تمہیں اس شرط پر جب تک ہم چاہیں گے رہنے دیتا ہوں۔" پھر عبیداللہ سے روایت کردہ ابن نمیر اور ابن مسہر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اور اس میں یہ اضافہ کیا: خیبر کی پیداوار کے نصف پھلوں کو (غنیمتوں کے) حصوں کے مطابق تقسیم کیا جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس لیتے تھے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بھی کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اس پھل دار درخت سے جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے اور اس سے جو کچھ چوری کیا جاتا ہے، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور اس سے جو درندے کھاتے ہیں، وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور جو پرندے کھائیں، وہ بھی صدقہ ہے، جو چیز یا فرد بھی اس میں کمی کرے گا، وہ اس کے لیے صدقہ ہی بنے گا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3968  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لا يرزؤه:
اس میں کمی نہیں کرے گا،
اس سے نہیں لے گا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ کام یا عمل جو دوسروں کے لیے نفع اور خیر کا سبب یا باعث بنتا ہے،
اور دوسرے لوگ اس سے،
اس کی اجازت یا مرضی کے بغیر فائدہ اٹھاتےہیں،
اور وہ ان کو برا بھلا نہیں کہتا،
تو ان کا اس کے کام یا عمل سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے اجرو ثواب کا باعث بنتا ہے،
اگر کوئی انسان اپنے لیے پھل دار درخت لگاتا ہے،
یا کھیتی باڑی کرتا ہے،
تو اس کے درختوں اور اس کی کھیتی پر اس کی مرضی کے علی الرغم،
انسان،
حیوان،
درندے،
اور پرندے فائدہ اٹھاتےہیں،
تو یہ اس کے لیے ثواب کا باعث ہے،
اس لیے شجر کاری اور کاشتکاری باعث فضیلت ہے،
بشرطیکہ ان کاموں میں مشغول اور مصروف ہو کر انسان اپنے دینی فرائض وواجبات سے غافل نہ ہو جائے یا ان کاموں میں دلچسپی حد سے نہ بڑھ جائے،
جس کی بنا پر امور دین سے دلچسپی کم ہو جائے،
اور تمام دنیوی مشاغل ومصروفیات کا یہی حکم ہے،
کہ اگر ان میں لگ کر انسان اپنے دینی فرائض وواجبات سے غافل نہیں ہوتا،
ان میں بقدر ضرورت دلچسپی لیتا ہے تو یہ مشغلہ اور مصروفیت اس کے لیے اجروثواب کا باعث ہے،
اس بنا پر اس میں اختلاف ہے،
کہ کون سا مشغلہ اور عمل انسان کے لیے سب سے بہتر اور افضل ہے،
بعض کے نزدیک کمائی یا کسب کا سب سے بہتر ذریعہ زراعت کاشتکاری ہے،
بعض کے نزدیک دستکاری صنعت وحرفت ہے،
جس میں ہاتھ سے زیادہ محنت کی جاتی ہے،
وگرنہ ہاتھ تو ہر جگہ ہی استعمال ہوتا ہے،
بعض نے تجارت کو افضل قرار دیا ہے،
آپﷺ سے سوال ہوا تھا کہ سب سے افضل کسب یا پاکیزہ ترین کسب کون سا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
انسان کا ہاتھ سے کام کرنا اور جائز طریقہ سے خریدوفروخت کرنا۔
حقیقت یہ ہے کہ افضلیت کا مداروانحصار،
اس عمل کے نفع اور فائدہ سے ہے،
جس کام میں بھی دوسروں کا نفع اور فائدہ زیادہ ہے،
یا جس میں لوگوں کی ہمدردی اور خیر خواہی زیادہ ہے،
وہی افضلیت کا باعث ہے،
کیونکہ کوئی کام ایسا نہیں ہے جس سے لوگ بے نیاز اور مستغنی ہو سکیں،
زراعت ہو یا تجارت،
صنعت وحرفت ہو یا ملازمت،
اس لیے مختلف احادیث میں ان کے نفع کا تناسب بدل سکتا ہے،
اس اعتبار سے محل فضلیت بھی بدل جائے گا،
غلہ کی کمی کے دنوں میں غلہ اگانا اور اس کے لیے آلات زراعت تیار کرنا،
جنگ کے دنوں میں جنگی سازوسامان تیار کرنا،
عام استعمال یا روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی کمی کے دنوں میں ان کی ترسیل اور فراہمی کا کاروبار کرنا،
سب اپنے اپنے موقع پر افضل ہیں،
اس طرح نظم ونسق میں بد انتظامی کو رد کرنے یا امن وامان قائم کرنے کے لیے یا تعلیمی معیار کو بلند اور اعلی وارفع کرنے کے لیے ان میں دلچسپی لینا افضل ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3968