صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
8. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ الَّذِي يَكُونُ بِالْفَلاَةِ وَيُحْتَاجُ إِلَيْهِ لِرَعْيِ الْكَلإِ وَتَحْرِيمِ مَنْعِ بَذْلِهِ وَتَحْرِيمِ بَيْعِ ضِرَابِ الْفَحْلِ:
باب: جو پانی جنگل میں ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا حرام ہے جب لوگوں کو اس کو احتیاج ہو گھاس چرانے میں اور اس کا روکنا منع ہے اور نر کدانے کی اجرت لینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4007
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أن أبا هريرة ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَمْنَعُوا فَضْلَ الْمَاءِ لِتَمْنَعُوا بِهِ الْكَلَأَ ".
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زائد پانی نہ روکو کہ اس کے ذریعے سے تم گھاس روک دو۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی نہ روکو، جس کا نتیجہ یہ نکلے کہ تم اس طرح گھاس کو روک سکو، (وہ تمہارے لیے محفوظ ہو جائے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 605  
´فالتو پانی روکنے کی ممانعت`
«. . . 355- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فالتو پانی نہ روکا جائے تاکہ اس طرح گھاس بچی رہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 605]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2353، و مسلم 1566/36، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام پوری انسانیت کے لئے خیرخواہی کا دین ہے۔
➋ اگر کسی آدمی کی زمین میں کسی ذریعے سے پانی آرہا ہے تو وہ اپنی ضرورت سے زائد پانی چھوڑ دے تاکہ اس کے ہمسائے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
➌ پڑوسیوں اور دوسرے مسلمانوں کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔
➍ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ پانی بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 5/32 تحت ح2253]
➎ اس حدیث میں ممانعت سے مراد تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے جیسا کہ جمہور کی تحقیق ہے لیکن بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں۔
➏ سدِّ ذرائع کے طور پر ایسے کام سے منع کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔
➐ اس حدیث کے عموم سے ظاہر ہے کہ روز مرہ کی تمام اشیاء جن سے مسلمانوں کی ضرورتیں وابستہ ہیں، روکنا اور ذخیرہ اندوزی کرنا غلط ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 355   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1272  
´ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1272]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ سوچ کردوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکاجائے کہ جب جانوروں کوپانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانورادھر نہ لائیں گے،
اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی،
یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1272   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3473  
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاضل پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے ذریعہ سے گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3473]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
صحرائوں عام چراگاہوں اور راستوں پر عام کنویں چشمے یا تالاب ہوتے تھے۔
چرواہے وہاں آکر جانوروں کو پانی پلاتے۔
آرام کرتے۔
اور اپنے جانوروں کو چراتے تھے۔
پہلے آنے والا بعض اوقات بعد میں آنے والوں کو بقیہ پانی سے منع کر دیتا تھا۔
اور غرض یہ ہوئی تھی کہ جب پانی نہ ملےگا۔
تو وہ لوگ بھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔
اور اس طرح ارد گرد کی چراگاہ کی گھاس اس کے اپنے جانوروں کےلئے محفوظ رہے گی۔
ایسا کرنا ناجائز ہے۔
البتہ اگر کنواں ٹیوب ویل یا تالاب وغیرہ ذاتی ہو۔
اور اس پر اس نے خرچ کیا ہو۔
تو دوسروں کو روک سکتا ہے۔
لیکن اسلامی اخلاق وآداب کا خیال رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3473   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4007  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک انسان کا ایسے علاقہ میں کنواں ہے،
جہاں مشترکہ گھاس موجود ہے،
جس سے سب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں،
اور اس گھاس کے قریب کوئی اور پانی نہیں ہے،
جس سے مویشیوں کو پلایا جا سکے،
اور مویشیوں کو پانی پلوائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے،
ایسی صورت میں اگر کنویں میں،
مالک کی ضرورت سے زائد پانی ہے تو اس پانی سے مویشیوں کو روکنا،
درحقیقت اس مشترکہ گھاس سے روکنا ہے،
اور یہ جائز نہیں ہے۔
امام مالک،
امام ابو حنیفہ،
اور امام شافعی کا یہی موقف ہے،
لیکن کاشت کاری اور زراعت کے لیے فالتو پانی دینا پسندیدہ ہے،
لازم نہیں ہے،
لیکن امام مالک کے نزدیک دونوں کا حکم یکساں ہے،
حدیث کی رو سےشوافع اور احناف کا موقف راجح ہے،
کیونکہ جانوروں اور زمین کا حکم یکساں نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4007