صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
32. بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ وَتَعْلِيمِهِنَّ:
باب: اس بارے میں کہ امام کا عورتوں کو بھی نصیحت کرنا اور تعلیم دینا (ضروری ہے)۔
حدیث نمبر: 98
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ عَطَاءٌ أَشْهَدُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ، وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ: عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَطَاءٍ، وَقَالَ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ایوب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا (یہ وعظ سن کر) کوئی عورت بالی (اور کوئی عورت) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں (یہ چیزیں) لینے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا، انہوں نے عطاء سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں (اس میں شک نہیں ہے)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 29  
´دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 29]

تشریح:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کفر حقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگر یہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابوسعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کر دیا ہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي هذاالحديث وعظ الرئيس المروس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيماقاله اذا لم يظهر له معناه الخ»
یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کر لے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔

حضرت امام نے «كفر دون كفر» کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ «وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» [المائدۃ: 44] کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا «خلود فى النار» ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے۔
➊ کفر بانکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
➋ کفر جحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفر تھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
➌ کفر عناد یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید و رسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی و حال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
➍ کفر نفاق یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف «وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِنْ لَا يَعْلَمُونَ» [البقرۃ: 13] میں مذکو رہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار و مہاجرین) لائے ہوئے ہیں تو جواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 98  
´عورتوں کا عیدگاہ میں جانا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 98]

تشریح:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگر سنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 98   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:98  
98. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی جانب) نکلے اور آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے، آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی، اس لیے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی اور کوئی اپنی انگوٹھی ڈالنے لگی اور حضرت بلال ؓ (ان زیورات کو) اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل (ابن علیہ) نے ایوب سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نبی ﷺ پر گواہی دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:98]
حدیث حاشیہ:

مرد گھر کا نگران ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم نسواں کے متعلق امام کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ اول تو ہر شخص اصول تعلیم سے واقف نہیں ہو تا۔
اگر وہ تعلیم یافتہ ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
اس لیے امام کو چاہیے کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ درسگاہ کا اہتمام کرے۔
ان کی ضرورت کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کرے پھر اس نصاب کو پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ کا اہتمام کرے۔
عورتوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ چادر و چار دیواری کے تحفظ کا پورا اہتمام ہو اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔
نیز تعلیم مخلوط نہ ہو کیونکہ مخلوط تعلیم میں فتنہ و فساد کے اتنے دروازے کھلتے ہیں کہ تعلیم کا مفاد اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ فرمایا:
جس کی تفصیل دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمھاری اکثریت باہمی لعن طعن اور کفران عشیر کی وجہ سے جہنم میں دیکھی ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرو۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 29)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کے لیے شوق دلانا اور سفارش کرنا بڑے ثواب کا کام ہے نیز عورتوں کے لیے انگوٹھی، چھلا، ہار، گلو بند اور بالیاں وغیرہ پہننے کا جواز ہے۔

آج کل چونکہ لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں۔
امام کے وعظ و نصیحت کو مرد عورتیں برابر سنتے ہیں اس لیے مستقل طور پر عورتوں کے پاس آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

اس حدیث سے عورتوں کا عید گاہ جانا بھی ثابت ہوا لیکن پردے اور سادگی کے احکام کے ساتھ جانا چاہیے نمودو نمائش سے ثواب ضائع اور گناہ لازم ہو جاتا ہے۔
جو حضرات اس سنت (عورتوں کے عیدگاہ جانے)
کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 98