صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
6. بَابُ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ ثَلاَثًا فِي السَّفَرِ:
باب: مغرب کی نماز سفر میں بھی تین ہی رکعت ہیں۔
حدیث نمبر: 1092
وَزَادَ اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ سَالِمٌ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ، قَال سَالِمٌ: وَأَخَّرَ ابْنُ عُمَرَ الْمَغْرِبَ وَكَانَ اسْتُصْرِخَ عَلَى امْرَأَتِهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ فَقُلْتُ لَهُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: سِرْ، فَقُلْتُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: سِرْ، حَتَّى سَارَ مِيلَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلَاثًا ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يُسَلِّمُ، وَلَا يُسَبِّحُ بَعْدَ الْعِشَاءِ حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ".
لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی (چلتے ہوئے) میں نے کہا کہ نماز! (یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے تو آپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (منزل مقصود تک) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 173  
´سفر میں دو نمازیں جمع کرنا`
«. . . وبه: قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 173]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 703، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ سفر میں دو نمازیں مثلا مغرب اور عشاء یا ظہر اور عصرجمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔
➋ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [موطأ امام مالك ح 488، 190، 109، 108، البخاري 4414، 139، ومسلم: 1280، 705، 2281]
➌ جب بارش میں حکمران مغرب اور عشاء کی نماز میں جمع کرتے تھے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ جمع کر لیتے تھے۔ ديكهئے [الموطا 145/1 ح 329 وسنده صحيح]
➍ مدینہ طیبہ کے مشہور تابعی اور فقیہ امام سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ نے سفر میں ظہر اور عصر کی نمازوں کے جمع کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ [الموطا 145/1 ح 330 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 199   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 589  
´جمع بین الصلاتین کا بیان۔`
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 589]
589 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تقدیم کی یا تاخیر یا پھر صوری؟ تینوں کا احتمال ہے، تاہم حدیث: 592سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جمع تاخیر کی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 589   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 596  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 596]
596 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بظاہر جمع صوری کا ذکر ہے جب کہ پچھلی روایات میں جمع تاخیر کا، گویا دونوں جائز ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ان روایات کو تعددِ واقعہ پر محمول کیا ہے، یعنی کبھی نمازیں جمع حقیقی کی صورت میں اور کبھی جمع صوری کی شکل میں ادا کیں، لہٰذا اس طرح روایات میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍750، 751، حدیث: 1109]
نیز بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اہلیہ مدینے میں تھیں اور آپ مکہ میں تو اس طرح مدینہ پہنچنے تک تین دن لگے تھے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍274]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 596   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 597  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 597]
597 ۔ اردو حاشیہ: مزید دیکھیے سنن نسائی حدیث: 589۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 597   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 600  
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 600]
600 ۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت صحیح ہے، البتہ اس روایت کے الفاظ «أَوْ حَزَبَهُ أَمْرٌ» یا کوئی مسئلہ آپ کو بے چین کرتا۔ ‘ کو محققین نے شاذ قرار دیا ہے۔ محقق کتاب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ جملہ صرف مجھے یہاں ہی ملا ہے کسی اور جگہ نہیں ملا۔ دیکھیے: [صحیح سنن النسائي للألباني، حدیث: 598]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 600   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 555  
´دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبر دی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہو گئی، وہ سواری سے اتر کر مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا، پھر لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے تھے ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 555]
اردو حاشہ:
1؎:
ان کا نام صفیہ بنت ابی عبید ہے۔

2؎:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بہت سے علماء کا یہی قول ہے کہ دو نمازوں کے درمیان جمع اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب آدمی سفر میں چلتے رہنے کی حالت میں ہو،
اگر مسافر کہیں مقیم ہو تو اسے ہر نماز اپنے وقت ہی پر پڑھنی چاہئے،
اور احتیاط بھی اسی میں ہے،
ویسے میدان تبوک میں حالتِ قیام میں آپ ﷺ سے جمع بین الصلاتین ثابت ہے،
لیکن اسے بیانِ جواز پر محمول کیا جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 555   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1209  
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک بار کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث «ایوب عن نافع عن ابن عمر» سے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کرتے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1209]
1209۔ اردو حاشیہ:
یہ ر وایت مرفوعاً صحیح ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1209   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1092  
1092.۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1092]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
آپ ﷺ نے سفر میں مغرب کی تین رکعت فرض نمازادا کی
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1092   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1092  
1092.۔ (راوی حدیث) لیث نے مزید کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی کہ سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ حضرت سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ نماز مغرب کو مؤخر کیا جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابوعبید کے مرنے کی خبر دی گئی۔ میں نے ان سے کہا: نماز کا وقت ہے۔ انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ پھر میں نے عرض کیا: نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ حتی کہ آپ دو یا تین میل چلے، پھر اتر کر نماز پڑھی اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی دیکھا، جب آپ کو سفر کی جلدی ہوتی تو اس طرح نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مزید فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، جب آپ کو سفر کی عجلت ہوتی تو نماز مغرب کی اقامت کہتے اور اس کی تین رکعات ادا کرتے، اس کے بعد سلام پھیر کر کچھ توقف کرتے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1092]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں دوران سفر دوگانہ پڑھنے کا ذکر ہے، نماز مغرب اس سے مستثنیٰ ہے۔
اسے قصر کے بجائے پورا پڑھا جائے۔
اس پر علماء کا اجماع ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ سے مسافر کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
دوران سفر مسافر کی نماز دو دو رکعت ہیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ادا کرنا ہوں گی۔
(فتح الباري: 739/2)
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہے، جیسا کہ راوئ حدیث حضرت لیث کی پیش کردہ روایت میں صراحت ہے بلکہ پہلی حدیث کے بعض طرق میں بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی تین رکعت ادا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1108)
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں دوگانہ پڑھتے تھے، لیکن مغرب کا دوگانہ نہیں تھا۔
اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ دوران سفر دو دو رکعت پڑھیں، البتہ مغرب کی تین رکعت ہوتی تھیں۔
(فتح الباري: 740/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1092