صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
14. باب الرِّبَا:
باب: سود کا بیان۔
حدیث نمبر: 4054
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ ".
امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سونے کے عوض سونے کی بیع نہ کرو، الا یہ کہ برابر برابر ہو اور اسے ایک دوسرے سے کم زیادہ نہ کرو اور نہ تم چاندی کی بیع چاندی کے عوض کرو، الا یہ کہ مثل بمثل (یکساں) ہو اور اسے ایک دوسرے سے کم زیادہ نہ کرو اور اس میں سے جو غیر موجود ہو اس کی بیع موجود کے عوض نہ کرو۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا، سونے کے عوض فروخت نہ کرو، مگر برابر، برابر اور ایک دوسرے سے زائد نہ کرو، اور چاندی، چاندی کے عوض فروخت نہ کرو، مگر برابر برابر، اور اسے ایک دوسرے پر زائد نہ کرو، اور موجود کو غیر موجود کے عوض فروخت نہ کرو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 510  
´کمی بیشی کے ساتھ ادھار کے بدلے نقد بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 259- مالك عن نافع عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض کو بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور ان میں سے کوئی چیز بھی ادھار کے بدلے نقد نہ بیچو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 510]

تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 2177، و مسلم 1584، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سونے چاندی کے لین دین میں اضافہ حرام ہے، چاہے نقد ہو یا ادھار۔
➋ اگر جنس علیحدہ ہو تو کرنسی کا تبادلہ جائز ہے مثلاً ریال دے کر روپے لینا یا روپے دے کر ریال وغیرہ لینا۔
➌ محمد طاہر القادری (بریلوی) نے أحمد رضا خان بریلوی سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ (12) روپے میں بیچ دے تو یہ جائز ہے۔ [بلا سُود بنکاری/عبوری خاکہ طبع سوم جولائی 1987ء ص100]
بریلوی صاحب کا اس عمل کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ صریح سود ہے۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «كل قرض جر منفعته فهو وجه من وجوه الربا» ہر وہ قرض جو نفع کھینچے، سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/350 وسنده صحيح وأخطأ من ضعفه]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 259   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1241  
´صرف کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1241]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
سونے چاندی کوبعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1241   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4054  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ربا:
کا معنی اضافہ و زیادتی یا بڑھوتری ہے،
اور علامہ ابوبکر جصاص نے اس کی تعریف یوں کی ہے،
(القرض المشروط فيه الاجل و زيادة مال علي المستقرض)
یعنی ادھار کی میعاد پر مقروض سے اضافہ وصول کرنا،
اور ایک مرفوع اور موقوف حدیث ہے،
(كل قرض جر منفعة فهو ربا)
قرض پر نفع وصول کرنا سود ہے۔
لا تشفوا:
یہ شف سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی،
زیادتی اور کمی دونوں آتے ہیں،
تو معنی ہوا،
ایک دوسرے سے کم یا زیادہ نہ کرو برابر،
برابر ہوں۔
فوائد ومسائل:
ربا کی دو قسمیں ہیں (1)
ربا النسيئة:
جس کی حرمت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے،
اس لیے اس کو ربا القرآن بھی کہتے ہیں،
جس میں ادھار،
رقم دے کر،
اس پر نفع یا اضافہ وصول کیا جاتا ہے۔
(2)
ربا الفضل:
جس کی حرمت احادیث میں بیان کی گئی ہے،
اس لیے اسے ربا الحديث بھی کہتے ہیں،
جس میں ایک جنس کا باہمی تبادلہ کمی و بیشی کے ساتھ کیا جاتا ہے،
مثلا ایک طرف چار کلو گندم ہے اور دوسری طرف 6 کلو گندم ہے،
یا ایک طرف دو تولہ سونا ہے اور دوسری طرف تین تولہ یا ڈھائی تولہ سونا ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور ایک ملک کی کرنسی کا حکم بھی سونے،
چاندی والا ہے،
تبادلہ میں کمی و بیشی جائز نہیں ہے،
اس طرح تبادلہ کا دست بدست نقد بنقد ہونا ضروری ہے،
موجود (ناجز)
کا غائب (غیر موجود)
سے تبادلہ جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4054