صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
15. باب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا:
باب: بیع صرف اور سونے کی چاندی کے ساتھ نقد بیع۔
حدیث نمبر: 4064
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الذَّهَبُ بِالذَّهَب، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ "،
) اسماعیل بن مسلم عبدی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابومتوکل ناجی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور اور نمک کے عوض نمک (کی بیع) مثل بمثل (ایک جیسی) ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا لین دین کیا، اس میں لینے والا اور دینے والا برابر ہیں۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا، سونے کے عوض، چاندی، چاندی کے عوض، گندم، گندم کے عوض، جو، جو کے عوض، کھجور، کھجور کے عوض، برابر، برابر اور نقد بنقد ہوں گے، جس نے زیادہ دیا، یا زیادہ لیا، اس نے سودی معاملہ کیا، اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 510  
´کمی بیشی کے ساتھ ادھار کے بدلے نقد بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 259- مالك عن نافع عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض کو بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور ان میں سے کوئی چیز بھی ادھار کے بدلے نقد نہ بیچو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 510]

تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 2177، و مسلم 1584، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سونے چاندی کے لین دین میں اضافہ حرام ہے، چاہے نقد ہو یا ادھار۔
➋ اگر جنس علیحدہ ہو تو کرنسی کا تبادلہ جائز ہے مثلاً ریال دے کر روپے لینا یا روپے دے کر ریال وغیرہ لینا۔
➌ محمد طاہر القادری (بریلوی) نے أحمد رضا خان بریلوی سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ (12) روپے میں بیچ دے تو یہ جائز ہے۔ [بلا سُود بنکاری/عبوری خاکہ طبع سوم جولائی 1987ء ص100]
بریلوی صاحب کا اس عمل کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ صریح سود ہے۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «كل قرض جر منفعته فهو وجه من وجوه الربا» ہر وہ قرض جو نفع کھینچے، سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/350 وسنده صحيح وأخطأ من ضعفه]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 259   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1241  
´صرف کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1241]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
سونے چاندی کوبعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1241