صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
17. باب بَيْعِ الْقِلاَدَةِ فِيهَا خَرَزٌ وَذَهَبٌ:
باب: سونے اور نگینوں والے ہار کی بیع۔
حدیث نمبر: 4076
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: " اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ، فَفَصَّلْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ "،
لیث نے ہمیں ابوشجاع سعید بن یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے خالد بن ابی عمران سے، انہوں نے حنش صنعانی سے اور انہوں نے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، اس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ مل گئے، میں نے اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "اسے الگ الگ کرنے سے پہلے فروخت نہ کیا جائے۔"
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ (12) دینار میں خریدا، ہار میں سونا اور پتھر کے نگینے تھے، میں نے ان کو الگ کیا، تو مجھے اس میں بارہ (12) دینار سے زیادہ مل گئے، تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے الگ کیے بغیر فروخت نہ کیا جائے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4076  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کسی چیز کے ساتھ سونے کی آمیزش ہو اور اسے سونے کے عوض بیچنا ہو تو سونے کو الگ کرنا ضروری ہے،
کیونکہ آپﷺ نے الگ کیے بغیر فروخت کرنے سے منع کیا ہے،
اس طرح سونا الگ کر کے اس کے ہم وزن سونا لیا جائے گا،
اور باقی چیز کی قیمت الگ لگائی جائے گی،
اس طرح کمی و بیشی کا خطرہ نہیں رہے گا،
کیونکہ اگر الگ نہ کیا جائے،
محض ظن و تخمین سے کام لیا جائے تو کمی و بیشی کا امکان موجود ہے،
امام شافعی،
امام احمد اور امام اسحاق وغیرہ،
محدثین کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک،
اگر الگ سونا،
چیز کے ساتھ ملے ہوئے سونے سے یقینی طور پر زیادہ ہو،
تو پھر جائز ہے،
کیونکہ سونے سے زائد دوسری چیز کی قیمت بن جائے گا،
اگر مفرد (الگ)
سونا،
مرکب (ملے ہوئے)
سونا کے برابر ہو یا کم ہو پھر جائز نہیں ہے،
لیکن سوال یہ ہے،
الگ کیے بغیر،
اس کا تعین کیسے ہو گا،
کہ کم ہے یا برابر ہے،
یا زائد ہے۔
امام مالک کے نزدیک اگر سونا،
بالتبع اور ضمنی طور پر موجود ہے،
اصل دوسری چیز ہے،
تو پھر وہ سامان کے حکم میں ہو گا،
تو پھر اس کو ہم وزن سونے سے بیچنا جائز ہے،
لیکن ظاہر ہے اس موقف کی تو اس حدیث کی موجودگی میں گنجائش نہیں،
اس طرح حماد بن ابی سلیمان کا موقف بالکل بے وزن ہے،
کہ اس کو ہر طرح کم ہو یا مقدار سونا زائد ہو،
بیچنا جائز ہے،
کیونکہ یہ نظریہ حدیث کے بالکل خلاف ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4076