صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
18. باب بَيْعِ الطَّعَامِ مِثْلاً بِمِثْلٍ:
باب: برابر برابر اناج کی بیع۔
حدیث نمبر: 4081
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَأَبَا سَعِيدٍ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ، فَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا، قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَفْعَلُوا وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ أَوْ بِيعُوا هَذَا وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ ".
) سلیمان بن بلال نے ہمیں عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمان سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی سے تعلق رکھنے والے ایک انصاری کو بھیجا اور اسے خیبر کا عامل مقرر کیا، وہ جنیب (عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہے؟ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! واللہ! نہیں۔ہم ملی جلی کھجور کے دو صاع کے عوض (عمدہ کھجور کا) ایک صاع خریدتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو بلکہ مثل بمثل (یکساں خریدو بیچو) یا پھر اسے بیچ دو اور اس کی قیمت سے دوسری قسم خرید لو، اسی طرح وزن (کے ذریعے سے لین دین کرنا ہو تو بھی برابر ہونا ضروری) ہے۔"
حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی انصار کے قبیلہ کے ایک فرد کو خیبر کا عامل (حاکم) بنا کر بھیجا، اور وہ کھجور کی جنیب نامی اعلیٰ قسم لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا خیبر کی تمام کھجوریں اس قسم کی ہیں؟ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم ردی یا ملی جلی دو صاع کھجوروں کے عوض ایک صاع اچھی کھجوریں خرید لیتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو، لیکن برابر، برابر تبادلہ کرو، یا یہ ردی کھجوریں بیچ کر، قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو، اس طرح ماپ کی طرح تول میں بھی برابری ہو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 513  
´ایک ہی جنس میں کم یا زیادہ لینا سود ہے`
«. . . 394- مالك عن عبد المجيد بن سهيل عن ابن المسيب عن أبى سعيد الخدري وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكل تمر خيبر هكذا؟ فقال: لا والله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر (کے علاقے) پر عامل یعنی امیر بنایا تو وہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم دو صاع کھجوریں دے کر اس قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین ساع دے کر دو ساع لیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عام کھجوروں کو درہموں (رقم) کے بدلے میں بیچ دو پھر رقم سے اعلی قسم کی کھجوریں خرید لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 513]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2201، 2202، ومسلم 95/1592، من حديث مالك به * وفي حديث يحيى بن يحيى: بِالدَّرَاهِمِ]

تفقه:
➊ اگر جنس ایک ہی ہو تو تجارت میں ایک جنس دے کر اس کے بدلے میں وہی جنس کم یا زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 394   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4081  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جنيب:
اعلیٰ یا منتخب کھجوریں۔
(2)
جمع:
مخلوط،
اچھی اور نکمی ملی جلی۔
فوائد ومسائل:
بنو عدی کے جس فرد کو آپﷺ نے بھیجا تھا،
اس نے عدم علم اور ناواقفیت و جہالت کی بنا پر ایک جنس کی مختلف انواع و اقسام میں ماپ میں کمی و بیشی کی،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس فعل سے روکا کہ ایک جنس کی اشیاء جو خوراک سے تعلق رکھتی ہیں،
ان کی اعلیٰ اور ادنیٰ قسم کا تبادلہ برابری کی صورت میں جائز ہے،
یا پھر نکمی قسم کو بیچ کر،
اس قیمت سے اعلیٰ قسم خریدنا ہو گا،
ظاہر ہے،
دوسری صورت میں ماپ یا تول کے اعتبار سے کم ہی ہو گی،
لیکن یہ ربا یا سودی معاملہ نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4081