صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ -- سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
20. باب أَخْذِ الْحَلاَلِ وَتَرْكِ الشُّبُهَاتِ:
باب: حلال کو حاصل کرنے اور شبہ والی اشیاء کو چھوڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4094
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ "،
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن کو بہت لوگ نہیں (یعنی ان کے حکم کو) جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) تو جو انسان مشتبہ یا شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے دپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گا، اس چرواہے کی طرح جو چراگاہ کے آس پاس جانور چراتا ہے، قریب ہے وہ اس میں ڈال لے یا اس میں گھس جائے، خبردار ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، خبردار، اللہ تعالیٰ کی چراگاہ، اس کی زمین میں، اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سنو، بدن انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو گیا، تو سارا بدن ٹھیک ہو گیا، سنور گیا، اور جب وہ بگڑ گیا، تو پورا جسم بگڑ گیا، سنو! وہ ٹکڑا دل ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 52  
´ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے`
«. . . يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 52]

تشریح:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں:
«قد اجمع العلماءعلي عظم موقع هذاالحديث وانه احدالاحاديت الاربعة التى عليهامدارالاسلام المنظومة فى قوله:»
«عمدة الدين عندنا كلمات . . . مسندات من قول خير البرية»
«اتق الشبه و ازهدن و دع ما . . . ليس يعينك واعملن بنية»
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 52   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266    
مشتبہ امور سے بچنے کا حکم
«عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:- واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه - ‏‏‏‏إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يقع فيه الا وإن لكل ملك حمى إلا وإن حمى الله محارمه الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب . ‏‏‏‏ متفق عليه»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی۔ یقیناً حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے والا ہے قریب ہے کہ اس میں جا پڑے یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار اور جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے یاد رکھو وہ دل ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1266]
دنیا سے بےرغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
«الزهد» کسی چیز کی رغبت کم ہونا۔ مراد دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف ساری توجہ رکھنا ہے۔
نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی ہوں اور انہیں چیزوں پر گزارہ کرے جن کے بغیر چارہ نہیں۔ [مسك الختام]
ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد حلال کو حرام کر لینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں زہد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہیں ان چیزوں سے زیادہ بھروسہ ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہیں اور تمہیں کوئی مصیبت اگر پہنچے تو اس کے ثواب کی رغبت اس سے زیادہ ہو کہ وہ مصیبت تمہیں نہ پہنچتی۔ صاحب سبل نے فرمایا یہ نبوی تفسیر دوسری تفسیروں سے مقدم ہے۔
مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ ترمذی نے فرمایا: اس میں عمرہ بن واقد منکر الحدیث ہے۔ البانی نے بھی اسے ضعیف جدا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ضعيف الترمذي حديث 405]
«الورع» بچنا مراد حرام سے بچنا بلکہ حرام سے بچنے کے لئے شبہ کی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا ہے۔

تخریج:
[بخاري 52]،
[مسلم المساقاة/107]

فوائد:
حلال ظاہر ہے۔ کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں، مثلاً پھل، روٹی، شہد، دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں، اسی طرح خرید و فروخت اور دوسرے معاملات جو سب جانتے ہیں کہ حلال ہیں۔ حرام ظاہر ہے مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، زنا، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ ان دونوں کا حکم واضح ہے جس کی حرمت صاف قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اور اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا وہ بھی حلال ہے۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی، ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں، اگر کوئی شخص حرام سے بچنا چاہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیوں کے اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہیں رہے گی آہستہ آہستہ واضح حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔
جو شبہات میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ وہ حرام میں جا پڑے کیونکہ اگر یہ مطلب نہ ہو تو پھر مشتبہات صاف ہی حرام کی قسم بن جائیں گی جبکہ یہ بات درست نہیں۔
جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔ کیوں کے شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بد درجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا عزت اس لئے کہ اگر شبہ والی چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
➎ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کے مال سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا۔ [متفق عليه]
➏ تمام مکروہ چیزوں سے بچنا بھی اس میں شامل ہے کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے۔ اگر مکروہ چیزوں سے نفرت قائم رہے تو حرام کی ارتکاب کی دلیری نہیں ہوتی۔
➐ جسم کے درست یا خراب ہونے کا اصل مرکز دل ہے۔ کیونکہ سارے اعضاء دل ہی کی بات مانتے ہیں، دل کہتا ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے آنکھ کھل جاتی ہے پاؤں چل پڑتے ہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے ہاتھ نیچے ہو جاتا ہے اور پاؤں رک جاتے ہیں۔ دل کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو عقل اس کے جواز کے دلائل کا انبار لگا دیتی ہے اگر نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب کی دلیلیں نکال لاتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3984  
´شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:
روٹی، شہد، اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت، جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔
کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، مردار، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔
بعض چیزیں اور کام ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔
عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔
علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔

(2)
جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو، مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔

(3)
مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔
انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔

(4)
جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنا اگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔

(5)
مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔

(6)
دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔
ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3984   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور نعمان اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف لے گئے حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان کو نہیں جانتی۔ پس جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا۔ جیسے چرواہا کہ چراگاہ کے گرد مویشی چراتا ہو تو کبھی نہ کبھی مویشی چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! حرام چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1266»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599.»
تشریح:
1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔
پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔
تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔
اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔
3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1205  
´مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں،
تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریزکرے،
اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا،
اس میں تجارت اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1205   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4094  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَهوَي بِاِصبَعَيهِ إِلي أُذنيه:
اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا کہ میں نے پورے اہتمام اور توجہ سے سنا ہے،
اس لیے پورے وثوق اور اعتماد سے بیان کرتا ہوں۔
(2)
إِسْتَبْرَا لِدِيْنِهِ وِ عرضِهِ:
اس نے اپنے دین کو شرعی مذمت سے اور اپنی عزت کو لوگوں کی طعن و تشنیع سے محفوظ کر لیا،
اس کے دین اور عزت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا،
نہ ان پر کوئی حرف آئے گا۔
(3)
حمي:
چراگاہ،
جس میں کسی انسان کو اپنے مویشی چرانے کی اجازت نہیں ہوتی،
یعنی ممنوعہ علاقہ،
کہ اگر اس کے اندر کوئی گھس جائے تو حکومت کی طرف سے وہ سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے،
اس لیے محتاط لوگ اس علاقہ کے قریب ہی نہیں جاتے،
اس طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ممنوعہ علاقہ ہیں،
جو ان کا ارتکاب کرے گا،
وہ سزا کا سزاوار ہو گا،
اور جو مشتبہ اشیاء سے احتراز نہیں کرے گا،
اور ان میں گرفتار ہونے سے اپنے آپ کو نہیں بچائے گا،
وہ چراگاہ کے آس پاس چرانے والے کی طرف،
محرمات کا بھی مرتکب ہو گا،
اس لیے جس طرح محتاط لوگ چراگاہ کے پاس اپنے جانور نہیں چراتے کہ کہیں وہ بھاگ کر چراگاہ میں نہ گھس جائیں،
محتاط اور پرہیزگار لوگ گناہوں میں گرفتار کرنے والی چیزوں سے دور رہتے ہیں اور انسان کی پرہیزگاری اور احتیاط کا دارومدار،
اس کے دل کی اصلاح و درستگی پر ہے،
کیونکہ تمام جسم پر اس کی حکمرانی ہے،
باقی تمام اعضاء و جوارح اس کے حکم کے پابند ہیں،
عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت کا محل اور مرکز بھی دل ہے،
اگر وہی عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت سے محرم ہو تو کوئی کام نہیں ہو سکتا،
اگر دل کے جذبات و احساسات درست ہوں گے،
تو اعضاء صحیح کام کریں گے،
لیکن اگر اس کے جذبات و احساسات ہی میں بگاڑ اور فساد پیدا ہو جائے،
تو اعضاء،
خود بخود غلط راستہ پر چلیں گے۔
فوائد ومسائل:
نظری و فکری اور عملی و اخلاقی اعتبار سے یہ حدیث،
دین میں بہت اہمیت اور عظمت کی حامل ہے،
جس پر انسان کی سیرت و کردار کی استواری کا انحصار ہے،
اس لیے بعض علماء نے اس کو دین کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ہے،
اور باقی دو حصے،
(إِنَّمَا الأَعْمَالً بِالنِّيَّات)
عملوں کا مدار نیتوں پر ہے۔
(مِنْ حُسنِ الإِسلَام المَرءِ تَركه مَالَا يَعْنِيه)
انسان کے اسلام کی خوبی اور حسن غیر متعلقہ یا غیر مطلوب اشیاء سے پرہیز کرنا ہے۔
اور اس اہمیت و عظمت کا سبب یہ ہے کہ اس میں ایک مسلمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام معاملات میں جائز اور حلال اشیاء کو قبول اور اختیار کرے،
جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ ان تمام معاملات سے بچے،
جن کی حلت و حرمت کے بارے میں شک و شبہ ہو۔
یا ان کی حلت و حرمت واضح نہ ہو،
اور اس لیے دل کی اصلاح و درستگی ضروری ہے،
اگر اس میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت موجود ہے،
تو ہر کام آسان ہے،
اگر دل اللہ کے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے خالی ہے،
تو جسم کے اعمال و احوال بھی صحیح نہیں ہوں گے۔
(2)
الحَلَالُ بَيِّنٌ،
وَالحَرَامُ بَيِّنٌ،
یعنی حلال کا حکم بھی واضح ہے،
اور حرام کا حکم بھی واضح ہے،
جو حلال ہے اس کو کرو اور جو حرام ہے اس کو چھوڑ دو،
جن کی حلت و حرمت کی صراحت موجود ہے،
ان کا معاملہ بالکل صاف ہے،
عمل میں کوئی شک و تردد نہیں ہے،
جیسا کہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے،
ما احل فهو حلال،
جس کو شریعت نے حلال کر دیا،
حلال اور ما حرم فهو حرام،
جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا وہ حرام ہیں،
لیکن حلال بین اور حرام بین کے درمیان دو چیزیں ہیں۔
(1)
جن کی حلت و حرمت میں اشتباہ ہے،
کیونکہ دلائل میں تعارض ہے،
یا دلائل کے فہم میں یا ان کے درمیان ترجیح و تطبیق دینے میں علماء کا اختلاف ہے،
اس لیے ان کی حلت و حرمت کا قابل اطمینان فیصلہ نہیں ہو سکتا،
عوام شک و شبہ میں پڑ جاتے ہیں،
یا ایک چیز ایک اعتبار و حیثیت سے قابل قبول ہے،
اور دوسری حیثیت و جہت سے قابل ترک ہے،
یا ایک چیز ہمارے نظریہ کے مطابق درست ہے،
لیکن بعد میں کوئی ایسی چیز سامنے آ گئی جس سے حرمت ثابت ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی بیوی کا واقعہ ہے کہ نکاح کے بعد ایک عورت نے بتایا،
میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے،
یا عبد بن زمعہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہے،
کہ آپ نے اس کا زمعہ سے نسب بھی ثابت کیا،
لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کا حکم بھی دیا،
اس طرح بعض دفعہ ایک کام بالکل جائز ہے،
لیکن دوسروں کے لیے شبہ کا باعث بنتا ہے،
اور فظنہ تہمت ہونے کی بنا پر،
اس سے بچنے کی ضرورت ہے،
جیسا کہ آپ نے پاس سے گزرنے والوں کو فرمایا تھا،
هذه صفية،
یہ میری بیوی صفیہ ہے،
اس طرح اس قسم کے معاملات میں جب تک قابل اطمینان بات سامنے نہ آئے،
ان امور سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر قابل اطمینان بات سامنے آ جائے،
تو پھر اس پر عمل کرنا چاہیے،
اس لیے آپ نے فرمایا،
مشتبہ امور کو بہت لوگ نہیں جانتے،
یہ نہیں فرمایا،
کوئی بھی نہیں جانتا۔
(2)
وہ چیزیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے،
جن کو سنن ابی داود کی روایت میں ما سبكت عنه فهو معفو،
جن سے شریعت خاموش ہے،
قابل مواخذہ نہیں ہیں،
اس لیے ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں کسی دلیل یا قرینہ کی بنا پر،
کسی چیز کی حرمت کا شبہ پیدا ہوتا ہو،
اس سے بچنا چاہیے،
لیکن بغیر کسی بنیاد کے محض وسوسہ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے،
جس کو کہتے ہیں،
اليقين لا يزول بالشك،
یقینی چیز کو محض شبہ اور شک کی بنیاد پر ترک نہیں کیا جا سکتا کہ ایک آدمی وضو کر کے کھڑا ہوا ہے،
پھر ہوا نکلنے کی آواز نہیں سنتا اور نہ ہی بدبو محسوس کرتا ہے،
محض وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو اس پر نماز نہیں توڑی جائے گی،
کیونکہ بے وضوء ہونے کا کوئی قرینہ یا دلیل نہیں ہے،
یا ایک مسلمان کے گھر سے گوشت آتا ہے،
تو انسان اس شبہ میں پڑ جائے کہ شاید انہوں نے بسم اللہ نہ پڑھی ہو،
ہاں،
اگر دلیل یا قرینہ موجود ہو،
تو پھر یہ وسوسہ نہیں ہو گا کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4094