صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
11. بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا:
باب: سفر میں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا۔
حدیث نمبر: 1101
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ حَدَّثَهُ، قَالَ:" سَافَرَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَرَهُ يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ، وَقَالَ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان کوفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن یزید نے بیان کیا کہ حفص بن عاصم بن عمر نے ان سے بیان کیا کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 458  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏» اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 458]
458 ۔ اردو حاشیہ:
➊اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہا سفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکو مت قائم ہو چکی تھی۔
➋حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً 1۔ جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کر دیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ 2۔ قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ 3۔ (ان خفتم۔۔۔ الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔
➌ امرنا سے مراد وجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 458   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1067  
´سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1067]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں قصر نماز کی مسافت کی بابت اجمال ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691)
 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مسافت قصر کے بارے میں صحیح ترین اور صریح ترین روایت یہی ہے۔ (فتح الباري، 567/2)
 تاہم اس مسئلہ کی بابت تمام روایات اوراقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز قصر کرنے کےلئے مذکورہ حدیث میں جو مسافت بیان ہوئی ہے وہ محض احتیاط کی بنا پر ہے۔
کہ آدمی اگر تین فرسخ یعنی 23، 22 کلومیٹر شہر کی حدود سے باہر جائے تو وہ نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرسخ سے کم سفر کرتے تو اس میں قصر نہ کرتے اور نہ ہی شریعت میں مسافت قصر کی کوئی تحدید کی گئی ہے۔
بلکہ عرف میں اگر دو یا تین میل کی مسافت کو بھی سفر کہا جاتا ہو تو شرعاً اس میں بھی قصر جائز ہوگی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی مسافت قصر کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ نماز قصر کی ابتداء کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کےلئے کسی مسافت کی قید نہیں بلکہ شہر کی حدود پار کرنے سے ہی سے قصر شروع ہوجاتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری 567/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1067   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 544  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 544]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث 551 پر مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اور ضعیف و منکر ہے۔

2؎:
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے،
اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،
گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے،
اور یہی راجح قول ہے۔
رخصت کے اختیار میں سنت پرعمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 544   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1101  
1101. حفص بن عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سفر میں تھے کہ فرمایا: میں نبی ﷺ کا ہم سفر رہا ہوں، میں نے آپ کو کبھی دوران سفر میں نفل پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1101]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ سفرمیں خالی فرض نماز کی دو رکعتیں ظہر وعصر میں کافی ہیں سنت نہ پڑھنا بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1101