صحيح البخاري
كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
11. بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا:
باب: سفر میں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا۔
حدیث نمبر: 1102
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ:" صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ"، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن حفص بن عاصم نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں دو رکعت (فرض) سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 458  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏» اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 458]
458 ۔ اردو حاشیہ:
➊اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہا سفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکو مت قائم ہو چکی تھی۔
➋حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً 1۔ جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کر دیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ 2۔ قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ 3۔ (ان خفتم۔۔۔ الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔
➌ امرنا سے مراد وجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 458   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1067  
´سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1067]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں قصر نماز کی مسافت کی بابت اجمال ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691)
 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مسافت قصر کے بارے میں صحیح ترین اور صریح ترین روایت یہی ہے۔ (فتح الباري، 567/2)
 تاہم اس مسئلہ کی بابت تمام روایات اوراقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز قصر کرنے کےلئے مذکورہ حدیث میں جو مسافت بیان ہوئی ہے وہ محض احتیاط کی بنا پر ہے۔
کہ آدمی اگر تین فرسخ یعنی 23، 22 کلومیٹر شہر کی حدود سے باہر جائے تو وہ نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرسخ سے کم سفر کرتے تو اس میں قصر نہ کرتے اور نہ ہی شریعت میں مسافت قصر کی کوئی تحدید کی گئی ہے۔
بلکہ عرف میں اگر دو یا تین میل کی مسافت کو بھی سفر کہا جاتا ہو تو شرعاً اس میں بھی قصر جائز ہوگی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی مسافت قصر کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ نماز قصر کی ابتداء کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کےلئے کسی مسافت کی قید نہیں بلکہ شہر کی حدود پار کرنے سے ہی سے قصر شروع ہوجاتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری 567/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1067   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 544  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 544]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث 551 پر مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اور ضعیف و منکر ہے۔

2؎:
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے،
اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،
گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے،
اور یہی راجح قول ہے۔
رخصت کے اختیار میں سنت پرعمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 544   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1102  
1102. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں، آپ دوران سفر دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی دو رکعت سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1102]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت مسلم شریف میں یوں ہے۔
صحبت ابن عمر في طریق مکة فصلی بنا الظھررکعتین ثم أقبل وأقبلنا معه حتی جاء رحله وجلسنا معه فحانت منه التفاتة فرأی ناساً قیاما فقال ما یصنع ھولاء قلت یسبحون قال لو کنت مسبحا لأ تممت۔
(قسطلاني)
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں مکہ شریف کے سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ تھا۔
آپ نے ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھائی پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنت پڑھ رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر میں سنتیں پڑھوں تو پھر فرض ہی کیوں نہ پورے پڑھ لوں۔
اگلی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کا یہی عمل تھا کہ وہ سفر میں نماز قصر کرتے اور ان دورکعتوں فرض کے علاوہ کوئی سنت نماز نہیں پڑھتے تھے۔
بہت سے ناواقف بھائیوں کو سفر میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث کے اس عمل پر تعجب کیا کرتے ہیں۔
بلکہ بعض تو اظہار نفرت سے بھی نہیں چوکتے، ان لوگوں کو خود اپنی ناواقفی پر افسوس کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ حالت سفر میں جب فرض نماز کو قصر کیا جارہا ہے پھر اس وقت سنت نمازوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1102   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1102  
1102. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں، آپ دوران سفر دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی دو رکعت سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1102]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا دوران سفر صرف نماز قصر پر اکتفا کرنا چاہیے۔
فرائض سے پہلے اور بعد میں سنت وغیرہ نہ پڑھی جائیں۔
اسوۂ نبوی یہی ہے۔
اس کی وضاحت ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔
راوئ حدیث کہتے ہیں:
میں طریق مکہ میں حضرت ابن عمر ؓ کا ہم سفر رہا ہوں۔
آپ نے ہمیں ظہر کی دو رکعت پڑھائیں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اگر قصر نماز کے بعد سنتیں پڑھنا ہوتیں تو بہتر تھا کہ قصر کے بجائے نماز کو پورا پڑھ لیا جاتا۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1579(689)
اس کے بعد حضرت ابن عمر ؓ نے مذکورہ حدیث سنائی۔
اس تفصیلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ دوران سفر نماز قصر پڑھتے تھے اور اس سے پہلے اور بعد میں کوئی سنت وغیرہ ادا نہیں کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی معمول تھا لیکن دیگر نوافل، مثلاً:
تہجد یا اشراق وغیرہ پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ آئندہ عنوان میں اس کے متعلق بیان ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1102