صحيح مسلم
كِتَاب الْهِبَاتِ -- عطیہ کی گئی چیزوں کا بیان
1. باب كَرَاهَةِ شِرَاءِ الإِنْسَانِ مَا تَصَدَّقَ بِهِ مِمَّنْ تَصَدَّقَ عَلَيْهِ:
باب: جس کو جو چیز صدقہ دے پھر اس سے وہی چیز خریدنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 4163
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: " حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ عَتِيقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَضَاعَهُ صَاحِبُهُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا تَبْتَعْهُ وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ، فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ "،
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں مالک بن انس نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے کسی کو) ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا (اسے دے دیا) تو اس کے (نئے) مالک نے اسے ضائع کر دیا (اس کی ٹھیک طرح سے خبر گیری نہ کی)، میں نے خیال کیا کہ وہ اسے کم قیمت پر فروخت کر دے گا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے مت خریدو اور نہ اپنا (دیا ہوا) صدقہ واپس لو کیونکہ صدقہ واپس لینے والا ایسے کتے کی طرح ہے جو قے (چاٹنے کے لیے) اس کی طرف لوٹتا ہے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں یعنی بطور صدقہ دیا، تو اس کے مالک نے اسے ضائع کر دیا، تو میں نے خیال کیا، وہ اس کو سستا بیچ دے گا، میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 285  
´صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے`
«. . . لا تشتره وإن اعطاكه بدرهم، فإن العائد فى صدقته كالكلب يعود فى قيئه . . .»
. . . اپنا صدقہ واپس لینے والا کتے کی مانند ہے جو اپنی قے (الٹی) کو چاٹ لیتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 285]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1490، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
① نیز دیکھئے: حدیث: 214
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 168   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 794  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں ایک آدمی کو سواری کے لئے دیا۔ اس نے اسے ناکارہ کر دیا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے سستے داموں بیچنے والا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اگر یہ گھوڑا ایک درہم کے عوض بھی دے تب بھی نہ خریدو۔ (الحدیث) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 794»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب لا يحل لأحد أن يرجع في هبته وصدقته، حديث:2623.»
تشریح:
1. صدقہ و خیرات میں دی ہوئی چیز قیمتاً بھی واپس نہیں لینی چاہیے۔
بعض علماء نے اسے خریدنا حرام ٹھہرایا ہے۔
لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا خیرات کردہ گھوڑا خریدنے سے منع فرمایا کہ ایسی خاص صورتوں میں فروخت کرنے والا خریدار سے تسامح اور چشم پوشی کر جاتا ہے جس سے فروخت کنندہ کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس طرح اس چیز کی قیمت میں کمی کا واقع ہونا گویا اپنی خیرات کو واپس لینے کے مترادف ہے جو کہ جائز نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 794   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4163  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حَمَلْتُ عَليٰ فَرسِ:
میں نے گھوڑے پر سوار کیا،
یعنی گھوڑا صدقہ کیا۔
(2)
عَتِيق:
نفیس اور عمدہ۔
(3)
اضاعه صاحبه:
جس کو صدقہ میں دیا تھا،
اس نے اس کی دیکھ بھال اور فروخت میں کوتاہی کی اور ضائع کر ڈالا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دے دی جائے،
اس کو خریدنا جائز نہیں ہے،
اور چونکہ جس کو صدقہ دیا ہے،
جب اس سے خرید لیں گے،
تو وہ سستے داموں آپ کو واپس کرے گا،
اس لیے آپ نے اس کو صدقہ کی واپسی سے تعبیر فرمایا ہے،
ائمہ کے نزدیک سستا خریدنا تو ناجائز ہے،
اور صحیح قیمت پر خریدنا،
ناپسندیدہ ہے،
لیکن ہر دو صورت میں بیع ہو جائے گی،
جبکہ اہل ظاہر کے نزدیک یہ بیع ہی درست نہیں ہے،
جیسا کہ حدیث کا تقاضا ہے،
لیکن اگر صدقہ کردہ چیز وراثت میں واپس آ جائے،
تو ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے،
اگرچہ بعض اہل علم اس کو بھی درست نہیں سمجھتے،
لیکن یہ موقف درست نہیں ہے،
کیونکہ اس کا جواز حدیث سے ثابت ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4163